ہواوے کا نیا اسمارٹ فون MATE60PRO لانچ ہوا اور خریداری کاایسا جوش دیکھنے میں آیا کہ آن لائن اسٹاک ایک منٹ میں مکمل فروخت ہو گیا ۔ اس موبائل فون کی کارکردگی کے حوالے سے ملکی و غیر ملکی سائنسی و تکنیکی ماہرین نے فوری طور پر اس موبائل فون کو ڈس اسمبلنگ کرکے اس کا جائزہ لیا۔مختصراً ، یہ ہواوے کے خود ساختہ کیرن 9000 ایس چپ سے لیس ایک فائیو جی اسمارٹ فون ہے جس کی لوکلائزیشن کی شرح نہایت اعلی ہے ، اوریہ پہلا فون ہے جو سیٹلائٹ کال فیچر کا بھی حامل ہے۔
ہواوے کے فائیو جی اسمارٹ فون کی واپسی پورے نیٹ ورک کے جوش کا سبب کیوں ہے؟
آئیے پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں۔ 2019 میں ہواوے موبائل فونز نے 240 ملین یونٹس کی فروخت کے ساتھ ایپل موبائل فونز کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اسمارٹ فونز کی دنیا میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ مئی 2019 میں ، امریکہ نے نام نہاد قومی سلامتی کے بہانے ہواوے کی سپلائی چین پر ایک جامع کریک ڈاؤن نافذ کیا ، جس میں عالمی کمپنیوں کو ہواوے کو مخصوص اجزاء اور ٹیکنالوجیز فروخت کرنے سے روک دیا گیا۔ یہاں تک کہ ہواوے کے خود ساختہ ہائی اینڈ موبائل فون چپس کے لئے بھی ، امریکہ کی جانب سےکسی بھی ایسی کمپنی پر سخت پابندی عائد ہے جو ہواوے کی پیداوار اور فراہمی کے لئے امریکی ٹیکنالوجی یا اسپیئر پارٹس کا استعمال کرتی ہے۔ ہواوے کو فائیو جی موبائل فونز کی پیداوار کو روکنا پڑا جس کے نتیجے میں ہواوے کی عالمی موبائل فون کی فروخت کی رینکنگ دوسرے نمبر سے گر کر 20 سے بھی نیچے چلی گئی ۔ تاہم چین کی ثابت قدمی امریکہ کے لیے غیر متوقع تھی۔
گزشتہ چار سال سے زائد سیاہ عرصے میں ہواوے نے ہمت نہیں ہاری اور چین کی سائنسی اور تکنیکی ترقی بھی نہیں رکی۔ چپ مینوفیکچرنگ ، ویفر پروسیسنگ ، آکسیڈیشن ، لیتھو گرافی ، ایچنگ ، تھن فلم پریسیپٹیشن ، انٹرکنکشن ٹیسٹنگ اور پیکیجنگ کے آٹھ بنیادی عمل کو توڑتے ہوئے ، چینی سخت محنت کر تے رہے ۔ ہواوے کے ویفر پروسیسنگ پلانٹس نے ویفر پروسیسنگ اور آکسیڈیشن ٹیکنالوجیز حاصل کرکے بڑے پیمانے پر پیداوار حاصل کی ۔ ہواوے کے پارٹنر اے ایم ای سی نے طویل عرصے سے 5 این ایم ایچنگ ٹیکنالوجی کو حاصل کر رکھا ہے ۔ ہواوے نے کئی سالوں سے تھن فلم پریسیپٹیشن کی ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کی ہے۔ رواں سال جنوری میں ہواوے نے اپنے خود ساختہ پلیٹ فارم کا اعلان کیا تھا ۔ اس نے ایک ارب انٹر کنکشن ٹیسٹ مکمل کیے اور 2021 کے اوائل میں پیکیجنگ کے عمل میں پیٹنٹ کے لئے درخواست دی ۔ جہاں تک لیتھوگرافی ٹیکنالوجی کا تعلق ہے تو موجودہ رجحان کو دیکھتے ہوئے یہ اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ اس حوالے سے پیش رفت زیادہ دور نہیں.
اب اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے پابندی عائد کیے جانے سے قبل ہواوے شنگھائی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں 4 ہزار سے زائد افراد موجود تھے۔ 2022 کے آخر تک ہواوے کے پاس 114,000 آر اینڈ ڈی ملازمین تھے جو ملازمین کی کل تعداد کا 55 فیصد ہیں۔ ہواوے کی 2022 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس نے گزشتہ دہائی میں آر اینڈ ڈی اخراجات میں 977.3 ارب یوآن سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے۔
ہواوے کی 2023 کی ششماہی رپورٹ کے مطابق صرف رواں سال کی پہلی ششماہی میں ہواوے کے آر اینڈ ڈی اخراجات 82.6 ارب یوآن تک پہنچ گئے جو سال بہ سال 4.4 فیصد کا اضافہ ہے۔ ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 2022 کے اختتام تک چین، بین الاقوامی پیٹنٹ درخواستوں کے حوالے سے سب سے بڑا ملک رہا جس کا درخواستوں کی تعداد کا حصہ کل تعداد کا ایک چوتھائی سے زیادہ ہے۔ ان میں چین کی ہواوے کمپنی اب تک کی سب سے بڑی درخواست دہندہ ہے، جس نے 2022 میں 7،689 کیسز کا اعلان کیا تھا۔
اگست 2019 میں ہواوے کی 1.0 ہارمونی کے اجرا سے اگست 2023 میں 4.0 ہارمونی کی باضابطہ ریلیز تک اور پھر خود ساختہ کیرن چپ 9000 ایس کے تجارتی استعمال تک کے سفرمیں اگر کوئی طاقت پس منظر میں رہی تو وہ ہواوے کی گزشتہ برسوں میں مسلسل بڑی آر اینڈ ڈی سرمایہ کاری اور چین کی ثابت قدمی ہے۔ بہت سے چینیوں کی نظر میں ہواوے کا MATE60PRO صرف ایک موبائل فون نہیں بلکہ امریکہ کے ہمہ جہت دباؤ میں چین کی اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کی ایک فاتحانہ پیش رفت ہے۔ اس اعتراف کے باوجود کہ یہ اب بھی جدید ترین چپ ٹیکنالوجی سے پیچھے ہے، چین نے بالآخر اسمارٹ فونز کے لیے جدیدفائیو جی چپس کو مقامی طور پربنانے کا مسئلہ حل کر لیا ہے۔
ہائی اینڈ چپ ٹیکنالوجی میں پیش رفت کا مطلب یہ ہے کہ امریکی پابندیاں چین کی اہم ٹیکنالوجیز کی ترقی کو نہیں روک سکیں۔ گزشتہ چار سالوں میں امریکی پابندیوں کے باعث چین کی چپ کی پیداواری صلاحیت دس گنا بڑھ گئی ہے اور دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ 2022 میں دنیا میں سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی 20 چپ کمپنیوں میں سے 19 کمپنیاں چین کی تھیں۔کلیدی ٹیکنالوجیز میں پیش رفت کا مطلب یہ بھی ہے کہ چین نے ٹی وی اور ریفریجریٹر جیسے گھریلو آلات سے لے کر آٹوموبائلز، تیز رفتار ریل، سیٹلائٹس، ڈرونز، صنعتی روبوٹس اور طبی آلات تک تقریبا تمام شعبوں میں چپس میں خود کفالت حاصل کی ہے اور مستقبل میں مزید کرنے والا ہے ۔ مختصر یہ کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں چین کے خلاف امریکہ کی جنگ کا کوئی مستقبل نہیں!
یاد رہے کہ سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا تھا کہ چین کے لیے 2020 سے قبل اسٹیلتھ لڑاکا طیارے تیار کرنا ناممکن ہے لیکن 11 جنوری 2011 ء کو ان کے چین کے دورے کے دن ہی چین کا جے 20 طیارہ آسمان میں محو پرواز تھا ۔ امریکی وزیر تجارت جینا ریمنڈ و نے بھی اپنے حالیہ دورہ چین سے قبل کہا تھا کہ اگر ہواوے نے ہائی ٹیک ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں سرمایہ کاری جاری رکھی تو اسے مزید سخت سزا دی جائے گی لیکن 29 اگست 2023 کو جب وہ چین آئیں تو ہواوے نے MATE60PRO کی باضابطہ فروخت کا اعلان کیا ۔ یہ اقدام ، چینیوں کی ثابت قدمی اور عزم کا دنیا کے سامنے واضح اعلان ہے کہ چین کبھی بھی کسی کی جاگیردار نہیں بنے گا۔ چین کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی ترقی کسی کا روزگار چھیننے کے لیے نہیں بلکہ دنیا کو ایک نئی بلندی پر پہنچانے کے لیے ہے۔
در حقیقت قوموں کے مزاج میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے ۔برطانوی اپنے شاندا رماضی کو یاد کرتے ہیں۔ امریکی جیسے ہیں ویسے ہی رہنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن چینی اپنی بہترین کوشش اور حاصل ہونے والے بہترین نتائج کو دوسروں کے ساتھ ایک مشترکہ مستقبل کی مشترکہ تعمیر میں استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔یہی وہ حقیقت ہے جس کا ادراک ضروری ہے۔