خاتون کے دماغ کا آپریشن تھا۔۔۔آپریشن کے دوران پورے آپریٹنگ روم میں خاموشی تھی کہ اچانک سب کو ایک زور کا جھٹکہ لگا۔۔۔یہ کیا خاتون کے دماغ میں زندہ کیڑا۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔
آٹھ سینٹی میٹر لمبا یہ زندہ کیڑا آسٹریلیا میں ایک خاتون کے دماغ میں پایا گیا۔۔۔۔اور محققین کہتے ہیں کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس طرح کا کیڑا انسانی جسم میں پایا گیا۔
یہ سرجری آسٹریلیا کے دارالحکومت ایڈنبرا میں جون 2022 میں کی گئی اور اس کا اندراج جریدے ‘ایمرجنگ انفیکشئیس ڈیزیزز’ کے تازہ ترین شمارے میں کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر سنجے سینانائیکا آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں میڈیسن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور کینبرا ہاسپیٹل میں اس کیس پر تحقیق کرنے والوں میں شامل تھے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وہ لمحہ بیان کیا جب سرجن نے پہلی مرتبہ اس کا مشاہدہ کیا۔
وہ کہتے ہیں،”سرجن اور ان کے ساتھ آپریٹنگ روم میں موجود سب لوگوں کو اپنی زندگی کا سب سے زبردست جھٹکہ لگا جب سرجن نے کوئی عجیب شے دیکھ کر اسے اپنے فورسیپ سے اٹھانا چاہا اور وہ سرخ رنگ کی شے آٹھ سینٹی میٹر کے کلبلاتے کیڑے میں تبدیل ہو گئی۔”
ڈاکٹر سینانائیکا نے مزید کہا کہ اس سب میں سے اگر آپ کراہیت کا عنصر نکال بھی دیں تو بھی یہ ایک نئی انفیکشن ہے جسے انسانوں میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔
آسٹریلیا میں اس 64 سالہ مریضہ کو مختلف طرح کی تکلیفوں نے گھیرا ہوا تھا۔ وہ پیٹ میں درد، ڈائریاا، کھانسی اور ڈیپریشن کی شکایت کر رہی تھیں۔ انہیں رات کو پسینے آجاتےاور ان کی یادداشت جانے لگی تھی ۔
جنوری 2021 میں انہیں ہسپتال میں داخل کر لیا گیا۔ اور ایک سکین میں ان کے دماغ میں کوئی ابنارمیلٹی دیکھی گئی۔
جون 2022 میں کینبرا ہاسپیٹل میں ان کی بائیوپسی کی گئی اور یوں کیڑے کا علم ہوا۔
ڈاکٹر سینانائیکا خبردار کرتے ہیں کہ اس کیس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے امراض اور انفیکشنز کا خطرہ بڑھ رہا ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، "یہ نئی انفیکشنز سامنے آرہی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر جانوروں کی دنیا سے انسانی دنیا میں داخل ہوئی ہیں۔ اور یہ انہیں میں سے ایک ہے۔ انسانی آبادی بڑھتی جا رہی ہے اور اب پھیل کر جانوروں کے ٹھکانوں تک پہنچ رہی ہے۔”
وہ کہتے ہیں،”پالتو اور جنگلی جانوروں کا ملنا اور جنگلی نباتات اور انسانوں کا ان پر انحصار ایسی مزید انفیکشنز کا باعث بن سکتا ہے جو ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھیں۔”
محققین کی ٹیم کو خدشہ ہے کہ اس کیڑے کا لاروا یا بہت ابتدائی کیڑے اس خاتون کے جسم کے دیگر حصوں مثلاً پھیپھڑوں اورجگر جیسے اعضاء میں موجود ہو سکتے ہیں۔
اس کیس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اس کی تحقیق کے لیے ٹیم میں انفیکشئیس ڈیزیزز، امیونالوجی اور نیوروسرجیکل کے ماہرڈاکٹر شامل تھے جن کا تعلق آسٹریلیا نیشنل یو نیورسٹی، قومی سائنسی ادارے (CSIRO)سی ایس آئی آر او، یونیورسٹی آف میلبورن اور یونیورسٹی آف سڈنی سے تھا۔