بیجنگ میں ترقی پذیر ممالک کی قومی حکمرانی سے متعلق پانچویں اعلی سطحی تھنک ٹینک فورم کا انعقاد کیا گیا۔ فورم میں شریک غیر ملکی معززین اور اسکالرز نے کہا کہ جدیدیت کا مطلب مغربی جدیدیت ہی نہیں ہے اور چینی طرز کی جدید کاری کا کامیاب تجربہ گلوبل ساؤتھ ممالک کے لیے سیکھنے کے قابل ہے۔ چین سمیت گلوبل ساؤتھ ممالک مغربی طرز کی جدید کاری کے چیلنجز پر قابو پا رہے ہیں اور جیت جیت کے تعاون اور باہمی مفادات، انصاف اور برابری پر مبنی جدید ترقیاتی راہ تلاش کر رہے ہیں۔ دنیا بھر کے 20 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے 200 سے زیادہ مہمانوں نے اس فورم میں شرکت کی۔
گیانا کے سابق صدر رامیٹا نے ویڈیو تقریر میں کہا کہ گزشتہ 50 سالوں میں ، دنیا کے جنوبی ممالک سے شمالی ممالک تک جانے والی دولت 150 ٹریلین ڈالر تک بنتی ہے۔ مغربی تجارتی ماڈل زیادہ قیمتوں پر فروخت اور کم قیمتوں پر خرید پر مبنی ہے تاہم ترقی کے حصول اور عالمی مسائل سے نمٹنے کے معاملے میں ،چین اور مغرب میں بہت فرق ہے۔
اقوام متحدہ کے سابق ڈپٹی سیکرٹری جنرل اور بین الاقوامی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فار گرین ڈویلپمنٹ آف بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے شریک سربراہ سولہیم نے کہا کہ چین ترقی کا ہیرو ہے۔ انہوں نے نئی توانائی کے حوالے سے مثال دیتے ہوئے کہا کہ انتہائی مہنگی فوٹو وولٹک مصنوعات کی قیمت میں اب 90 فیصد کمی ہوئی ہے اور تمام ترقی پذیر ممالک اب شمسی توانائی کے استعمال کے اہل ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں اکیسویں صدی گلوبل ساؤتھ کی صدی ہے اور ہمیں کس کی ہار اور کس کی جیت کے سوال کے بارے میں بحث کو چھوڑ دینا چاہئے۔ زمین پر ہر ترقی پذیر ملک ، مغرب کے ساتھ تعلقات رکھتے ہوئے ، چین کا قریبی شراکت دار اور دوست بننا چاہتا ہے ۔ا ن کا کہنا تھا کہ کچھ مغربی ممالک اب بھی دوسرے ترقی پذیر ممالک کے لیے چین کی حمایت سے عدم اطمینان محسوس کرتے ہیں۔انہیں اس ضمن میں خود کو چین سے بہتر کر نے کی کوشش کرنی چاہیے ۔