روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ایک ٹیلی فونک خطاب میں کہا کہ 21 نومبر کو روسی فوج نے یوکرین کے فوجی صنعتی اداروں پر مشترکہ حملہ کیا۔ حملے کے دوران روسی فوج نے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے ایک نئے ہائپر سونک میزائل کا تجربہ کیا جس میں جوہری وار ہیڈ نہیں تھا۔ یہ میزائل 10 ماک کی رفتار سے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور فی الحال ایسا کوئی میزائل شکن نظام موجود نہیں ہے جو اس قسم کے میزائلوں کو روک سکے۔
پوٹن نے کہا کہ یوکرین نے مغربی ساختہ ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے روس کے اندر اہداف پر حملے شروع کر دیے ہیں۔ روس پر مغربی میزائل حملے کے بعد روس یوکرین تنازع نے عالمی تنازع کی شکل اختیار کر لی ہے۔ تنازع میں کسی بھی طرح کے اضافے کی صورت میں ، روس فیصلہ کن طور پر جوابی اقدامات کرے گا۔ پوٹن نے اس بات پر زور دیا کہ 2019 میں آئی این ایف معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری ایک غلطی تھی اور یہ روس نہیں بلکہ امریکہ ہے جو طویل عرصے سے موجودہ بین الاقوامی سلامتی کے نظام کو کمزور کر رہا ہے۔ مستقبل میں درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تعیناتی کے لیے روس کے منصوبوں کا انحصار امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اقدامات پر ہوگا۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے 21 تاریخ کی شام کو سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کیا، جس میں پوٹن کے اس الزام کو مسترد کیا گیا کہ "یوکرین مغربی طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار استعمال کر رہا ہے”۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین طویل عرصے سے ان ہتھیاروں کا استعمال کر رہا ہے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت یوکرین کو اپنا دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔ یوکرین کی وزارت خارجہ نے شراکت داروں اور اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ یوکرین کو فضائی دفاعی نظام فراہم کریں جو ایسے میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔