اعتصام الحق ثاقب
برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہونے والا جی 20 اجلاس اپنے اختتام کو پہنچا اور 19 نومبر کو اس حوالے سے ایک اعلامیہ بھی جا ری ہوا۔اس اعلامیے میں جی 20 رہنماؤں نے کثیر الجہتی کے لئے اپنے مضبوط عزم کا اعادہ کیا اور عالمی گورننس کے نظام میں اصلاحات کا عہد کیا۔ رہنماؤں نے اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے مقاصد اور اصولوں پر مبنی کثیرالجہتی نظام کی بحالی کے لیے مل کر کام کرنے کا عہد کیا، جس میں تجدید شدہ ادارے اور ایک اصلاح شدہ گورننس شامل ہو ۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کا بھی عہد کیا گیا جو اسے اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکے اور اسے زیادہ موثر بنائے۔ تما م رہنماؤں نے کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں اور دیگر بین الاقوامی اقتصادی اور مالیاتی اداروں میں فیصلہ سازی میں ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی اور کردار کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ عالمی تجارت میں اصلاحات کے حوالے سے قواعد پر مبنی، غیر امتیازی، منصفانہ، کُھلے، جامع، پائیدار اور شفاف کثیر الجہتی تجارتی نظام کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ ڈبلیو ٹی او میں ضروری اصلاحات کی بھی حمایت کی گئی تاکہ 2024 تک تمام ممبران کے لئے تنازعات کے تصفیے کا موثر نظام موجود ہو۔
یہ اعلامیہ نہایت خوش آئند ہے لیکن سوال وہی پرانا ہے۔اور وہ سوال ہے کہ آخر ایسا کب ہو گا؟ دنیا کی تاریخ میں عالمی جنگوں کے بعد ایک ایسے ادارے کی ضرورت محسوس کی گئی جو جو عالمی تنازعات سمیت مختلف اہم مسائل پر دنیا کی آواز ثابت ہو اور عالمی امن میں اس ادارے کا بنیادی کردار ہو لیکن دنیا نے دیکھا کہ کیسے ایک عالمی ادارے کو عالمی طاقتوں نے ہی اپنے مفاد کی خاطر استعمال کیا اور یوں اقوام متحدہ کا کثیر الجہتی ادارہ بے دانت کا شیر رہ گیا۔یہ یقینا ایک سخت جملہ اور ایک تلخ حقیقت ہے لیکن اس کی سچائی کے لئے یہی کافی ہے کہ حال ہی میں اقوام متحدہ میں فلسطین کے معاملے پر اقوام متحدہ اور اس کے رکن ممالک کی آواز کو نہیں سنا جا رہا اور نسل کشی کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔عالمی سطح پر دیکھا جائے تو چین نے ایک بڑے اور ذمہ دار ملک کی حیثیت سے سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ میں اصلاحات کی کوششوں پر ایک مضبوط موقف اپنا یا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جی 20 اجلاس میں بھی اس حوالے سے آواز اٹھائی گئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کے معاشی استحکام کے لئے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک کو دنیا میں موجود وسائل کا بہترین استعمال کرنا ہو گا لیکن اس کے لیے امن ضروری ہے اور امن کے ساتھ انصاف بھی۔عالمی عدالت انصاف کے فیصلے ہوں یا پھر اقوام متحدہ کے فیصلے،فیصلوں پر من مانی نہیں بلکہ من عن عمل کی ضرورت ہے اور اس کے لیے تمام ممالک کو غیر جانب دار رہنا ہوگا جو کہ اس وقت نظر نہیں آتا۔اس اجلاس میں چین کے صدر شی جن پھنگ نے دنیا میں غربت کے مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ چین میں غربت کے خاتمے کے عمل نے ظاہر کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں غربت کے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے۔ چین کامیاب ہو سکتا ہے تو دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ غربت کے خلاف جنگ جیتنے میں چین کی کامیابی کی یہ عالمی اہمیت ہے اور یہی ایک ماڈل ہے جو اس وقت تمام ترقی پزیر ممالک کو یہ تحریک دیتا ہے کہ وہ دنیا سے غربت کے خاتمے کی کوششوں میں عالمی تجربات سے استفادہ کریں اور ایک مساوی سماجی نظام کی جانب بڑھیں ۔
ایک اور اہم معالمہ تجارتی قوانین اور ان کا استعمال ہے جس میں ترقی پزیر ممالک کو کئی شکایتیں ہیں ۔اس اجلاس میں ان شکایتوں کو بھی دور کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے لیکن کیا عالمی معیشتوں میں ایسا نظام موجود ہے جو اس عزم کو عمل کی صورت میں دنیا کو کر کے دکھائے۔عالمی تجارت میں یکطرفہ پسندی اور تحفظ پسندی کے اقدامات کی چارو نا چار قبولیت اس نظام کے غیر موثر ہونے کی دلیل ہے ۔چین کے صدر نے یہ بھی کہا کہ صرف دیرینہ حل طلب مسائل کو حل کرنے کی ہی ضرورت نہیں بلکہ مستقبل کے لئے نئے قوانین کی تشکیل کو فعال طورپر تلاش کرنے اور کثیر الجہتی تجارتی نظام کے اختیار، افادیت اور مطابقت کو بڑھانے کی بھی ضرورت ہے. معاشی مسائل کو سیاسی رنگ دینے، مصنوعی طور پر عالمی منڈی کو تقسیم کرنے اور سبز اور کم کاربن کے نام پر تحفظ پسندی سے گریز کرنے کی آوازیں اس لئے اٹھ رہی ہیں کیوں کہ ترقی پزیر ممالک کو ان مسائل سے اپنی بقا کی مشکلات ہیں لہذا یہ ضروری ہے کہ عالمی اقتصادی ، مالیاتی،تجارتی حکمرانی اور عالمی ڈیجیٹل گورننس کو بہتر بناتے ہوئے تعاون پر مبنی عالمی معیشت کی تعمیر کی جائے.
چین کی جانب سے اس اجلاس میں 8 نکاتی اقدامات کا ایک خاکہ بھی پیش کیا گیا جس میں اعلی معیار کے بیلٹ اور روڈ تعاون کو آگے بڑھانا ،عالمی ترقیاتی اقدام کو نافذ کرنا ۔ افریقہ میں ترقی کی حمایت کرنا،غربت میں کمی اور غذائی تحفظ پر بین الاقوامی تعاون کی حمایت کرنا ، چین ، برازیل ، جنوبی افریقہ اور افریقی یونین کے ساتھ مل کر ، اوپن سائنس میں بین الاقوامی تعاون سے متعلق پہل کی تجویز ، گلوبل ساؤتھ کے فائدے کے لیے عملی تعاون کو انجام دینے میں جی 20 کی حمایت کرنا، جی 20 اینٹی کرپشن ایکشن پلان ک نفاذ ،اور اعلی معیار کے کھلے پن سمیت یکطرفہ طور پر سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے اپنے دروازے وسیع کرنا شامل ہے ۔
ضروت اس امر کی ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا میں استحکام کا رنگ خلوص کی اینٹوں پر چڑھا ہو تا کہ بھوک افلاس اور رنجشیں اس کی بنیادوں میں رہیں اور ایک خوشحال جی 20 نہیں لکہ عالمی دنیا سب کااستقبال کرے ۔