لوگ آئیں اور خود دیکھیں کہ چین نے کتنی زبردست ترقی کی ہے،وزیراعظم سلواکیہ

سلوواکیہ وسطی یورپ میں واقع ہے اور یہ عوامی جمہوریہ چین کو تسلیم کرنے والے پہلے ممالک میں سے ایک تھا۔ 31 اکتوبر کو سلوواکیہ کے وزیر اعظم رابرٹ فیزو چین کے سرکاری دورے پر بیجنگ پہنچے۔
چین کے دورے کے موقع پر فیزو نے کہا کہ یہ دورہ 2024 میں ان کا سب سے اہم دورہ تھا۔انہوں نےحالیہ دنوں چائنا میڈیا گروپ کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ چین اور سلوواکیہ کے درمیان شراکت داری نےسلوواکیہ کے لئے نئے مواقع پیدا کیے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم ترقی کا اپنا راستہ اختیار کرنے پر چین کا احترام کرتے ہیں کیونکہ یہ بہت مؤثر ہے اور اس کے موثر ہونے کی عکاسی چین کی اقتصادی ترقی کی کامیابیوں، عوام کے معیار زندگی اور عالمی سیاست پر چین کے اثر و رسوخ سے ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں بہت سے لوگوں نے چین کو غلط سمجھا ہے اور کچھ لوگوں کو چین سے غیر ضروری خوف ہے۔سلواکیہ کے وزیر اعظم نے مشورہ دیا کہ یہ لوگ چین آئیں اور خود دیکھیں کہ چین نے کتنی زبردست ترقی کی ہے۔
سلوواکیہ وسطی اور مشرقی یورپ میں چین کا چوتھا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار اور درآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ چین اور سلوواکیہ کے مابین تجارتی حجم نے مسلسل تین سالوں سے 10 بلین امریکی ڈالر سے تجاوز کیا ہے۔ نامکمل اعداد و شمار کے مطابق چینی کمپنیوں نے سلوواکیہ میں 600 ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے اور سلوواکیہ میں 5,000 سے زائد ملازمتیں پیدا کی ہیں۔ یکم نومبر کو چین سلوواکیہ اقتصادی اور تجارتی فورم میں وزیر اعظم فیزو نے دونوں ممالک کے مابین اقتصادی اور تجارتی تبادلوں کی ترقی پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ ان کا ماننا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے چین کی الیکٹرک گاڑیوں پر اضافی محصولات عائد کرنا غیر دانشمندانہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ چین یورپی اقدار کا احترام کرتا ہے اور یورپ کو بھی چین کے اپنے ترقیاتی راستے کا انتخاب کرنے کے حق کا احترام کرنا چاہیے۔ صرف تعاون ہی جیت جیت کی صورتحال حاصل کرسکتا ہے ، جو مستقبل کی عالمی ترقی کی سمت ہے۔

روس یوکرین تنازع کے حوالے سےسلوواکیا کے وزیر اعظم فیزو نے کہا کہ یوکرین کی یورپی یونین میں شمولیت کی خواہش کی حمایت کی جانی چاہیے لیکن یوکرین کے بحران کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ اگر مغرب اسی طرح طرح یوکرین کی حمایت جاری رکھتا ہے تو اس تنازعے کو روکنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

Comments (0)
Add Comment