اسلام آباد:حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کا ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا ہے ، اس بل کے تحت سکیورٹی اداروں کو دہشت گردی میں ملوث افراد کو تین ماہ کےلئے حراست میں رکھنے کا اختیار مل جائےگا اور گرفتار افراد پر الزامات کی تحقیقات کےلئے اعلیٰ سطح کی جے آئی ٹی بنائی جائیگی ، یہ بل جمعہ کو قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا جسے مزید غور کےلئے قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے جبکہ سینیٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس بھی پیش کردیا گیا اور اس آرڈیننس کو بھی قائمہ کمیٹی کو بجھوا دیا گیا ، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون وانصاف نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17سے بڑھا کر 25مقرر کرنے کے بل کی بھی منظوری دے دی ہے ، تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام نے اس بل کی مخالفت کی ہے ، اب یہ بل آئندہ ہفتے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں منظوری کےلئے پیش کیا جائے گا ۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کےا جلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کا ترمیمی بل پیش کیا جسے اسپیکر نے قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا ۔ترمیمی بل کے مطابق آرمڈ ، سول آرمڈ فورسز کو دہشتگرد سرگرمیوں میں ملوث فرد کو گرفتار کرنے کا اختیار دیا جائے گا، دہشتگرد سرگرمیوں میں ملوث شخص کو تین ماہ کی تحویل میں لیا جا سکے گا، قابل گرفت معلومات اور وجوہات کی بنا پر کسی بھی فرد کو تین ماہ کی تحویل میں لیا جائے گا،گرفتار شخص پر الزامات کی تحقیقات کے لئے اعلی سطح جے آئی ٹی بنائی جائے گی، جے آئی ٹی میں سپرنٹینڈنٹ پولیس افسر، انٹیلی جنس حکام، سول آرمڈ فورسز اور دوسری فورسز کے نمائندگان شامل ہوں گے، ترمیمی ایکٹ کو منظوری سے دو سال تک نافذ العمل تصور کیا جائے گا۔علاوہ ازیں سینیٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس 2024پیش کر دیا گیا۔قائم مقام چیئرمین سیدال خان کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پیش کیا۔سینیٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا۔پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 2میں ایک ذیلی شق شامل کی گئی ہے جس کے تحت کمیٹی میں چیف جسٹس پاکستان کے علاوہ ایک سینیئر ترین جج اور ایک چیف جسٹس پاکستان کا نامزد کردہ جج شامل ہوگا۔سیکشن 3کی ذیلی شق 2کے تحت اور آرٹیکل 184کی شق 3کے تحت معاملے پر سماعت سے قبل مفادِ عامہ کی وجوہات دینا ہوں گی۔آرڈیننس میں سیکشن 7اے اور 7بی کو شامل کیا گیا ہے، 7اے کے تحت ایسے مقدمات جو پہلے دائر ہوں گے انھیں پہلے سنا جائے گا اور اگر کوئی عدالتی بینچ اپنی باری کے برخلاف کیس سنے گا تو اسے اس کی وجوہات دینا ہوں گی۔ اس کے علاوہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین فاروق ایچ نائیک کی صدارت میں ہوا جس میں سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 17سے بڑھا کر25مقرر کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے ، چیئرمین فاروق ایچ نائیک کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف اجلاس میں اکثریتی رائے سے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 25کرنے کی منظوری دی۔ پی ٹی آئی اور جمعیت علما اسلام (ف)نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھانے کی مخالفت کی۔اجلاس میں چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے کہا کہ25ججز میں ایک چیف جسٹس اور 24ججز شامل ہوں گے۔پی ٹی آئی کے سینیٹر حامد خان نے کہا کہ ہمیں اس طرح قانون سازی پر اختلاف ہے، ججز تعیناتی کا ایسا طریقہ کار عدلیہ کی آزادی پر حملہ ہے۔سینیٹر حامد خان نے کہا کہ 26ویں ترمیم سے ہم نے عدلیہ کو بہت سخت نقصان پہنچایا ہے، جب کسی ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو ججز کی تعداد بڑھائی جاتی ہے کیوں کہ مرضی کے فیصلے نہیں آرہے ہوتے، آپ بتائیں آپ کی حکومت کیا کرنا چاہ رہی ہے۔ جے یو آئی سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ تعداد بڑھا کر اپنی مرضی کے ججز کو سپریم کورٹ لایا جا رہا ہے، 25اکتوبر کے بعد اب ججز بہترین انداز سے کام کر رہے ہیں، تعداد بڑھانے کی ضرورت نہیں۔سینیٹر شہادت اعوان نے کہاکہ سپریم کورٹ ججز کی کم از کم تعداد 21لازمی کرنی چاہیے۔چیئرمین کیمیٹی نے سیکرٹری قانون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر اخبار بتا سکتا ہے کہ مقدمات کی تعداد 60ہزار ہیں تو آپ کیوں نہیں بتا سکتے، آپ کو انفارمیشن کیلئے کتنا وقت چاہیے۔سیکرٹری قانون نے کہا کہ ہمیں کم سے کم بھی تین ہفتے کا وقت دے دیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ججز کی تعداد بڑھانے کا بل آئندہ ہفتے پیر کو سینیٹ میں منظوری کےلئے پیش کیا جائے گا ، سینیٹ سے منظوری کے بعد یہ بل منظوری کےلئے قومی اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا، اس بل کی منظوری کےلئے ایوان میں سادہ اکثریت کی حمایت درکار ہوگی ۔