اسلام آباد:خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے 26ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دےدی ہے جسے اب منظوری کےلئے وفاقی کابینہ کے اجلا س میں پیش کیا جائےگا اور کابینہ سے باضابطہ منظوری کے بعد 26ترامیم پر مشتمل آئینی ترمیم کا مسودہ حتمی منظوری کےلئے پہلے سینیٹ اور پھر قومی اسمبلی میں منظوری کےلئے پیش کر دیا جائے گا ۔پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہوا۔ کمیٹی کا یہ دسواں اجلاس تھا جس میں مسودے کی حتمی منظوری دی گئی ، کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ نے صحافیوں سے مختصر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ متفقہ طور پر منظوری دی گئی ہے ،اب یہ مسودہ کابینہ میں جائےگا ۔انہوں نے کہا کہ اس میں سب سے اہم تجویز یہ دی گئی ہے کہ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی دہری شہریت رکھتے ہوئے الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ہوں گے تاہم انہیں الیکشن جیتنے کی صورت میں 90روز کے اندر غیر ملکی شہریت کو ترک کرنا ہوگا ،
آئین کے آرٹیکل 239/230/215/209/208/255/259/184/185/186/187/191/172A/ 179سمیت دیگر شقوں میں ترامیم کی منظوری دی گئی ہے ، پی ٹی آئی کے رہنما عامر ڈوگر اور جے یو آئی کی شاہدہ جمیل نے ان خبروں کو غلط قراردیا ہے کہ کمیٹی نے متفقہ طور پر مسودے کی منظوری دی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں جنہیں تسلیم نہیں کیا گیا۔ مجوزہ آئینی پیکج میں سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی تقرری اب سینئر ترین جج کی بجائے تین ججز کے پینل میں سے کرنے کی رائے ہے ،آئینی ترمیم منظور ہونے کی صورت میں سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز کا پینل پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا اور پارلیمانی کمیٹی ان میں سے کسی ایک کی منظوری دینے کی سفارش وزیراعظم کو بجھوائے گی ،آئینی عدالت کی تجویز کو ختم کرکے آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے ۔ججز کی تقرری کےلئے قائم اٹھارہویں آئینی ترمیم کو بحال اور انیسویں ترمیم کو ختم کردیا جائے گا ، سروسز چیف کے طریقہ کا ر کو بھی قانونی تحفظ دیا جائے گا ،
مجوزہ آئینی ترمیم کا حکومتی مسودہ 12 صفحات اور 26نکات پر مشتمل ہے ،متن کے مطابق نئے آرٹیکل 191اے میں سپریم کورٹ میںآئینی ڈویژنکا قیام شامل ہے ، ججزکی تعداد جوڈیشل کمیشن مقرر کرے گا، ججز کیلئے ممکنہ حد تک تمام صوبوں کو برابر کی نمائندگی دی جائے گی، سپریم کورٹ کا کوئی جج اوریجنل اختیار سماعت، سوموٹو مقدمات کا مجاز نہیں ہوگا، سپریم کورٹ کا کوئی جج آئینی اپیلوں یا صدارتی ریفرنس کی سماعت کا مجاز نہیں ہوگا۔سوموٹو، اوریجنل جورسڈکشن کی سماعت اور فیصلہ آئینی ڈویژن کا 3 رکنی بینچ کرے گا، صدارتی ریفرنسز کی سماعت اور فیصلہ بھی آئینی ڈویژن کا 3 رکنی بینچ کرے گا، آئینی اپیلوں کی سماعت اور فیصلہ آئینی ڈویژن کا 3 رکنی بینچ کرے گا۔
آئینی ڈویژن سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین جج تشکیل دیں گے ، سپریم کورٹ میں آئینی ڈویژن کے دائرہ اختیار میں زیرالتوا کیسز اور نظرثانی درخواستیں منتقل ہوں گی۔مسودے میں چیئرمین جوائنٹ چیفس، سروسزچیفس کی دوبارہ تقرری اور توسیع کے قوانین کو آئینی تحفظ حاصل ہے ۔ اس کے لیے آئین میں نئے آٹھویں شیڈول کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے ۔ آرٹیکل 243میں نئی شق 5 کا اضافہ تجویز ہے جس میں ترمیم کے بغیر ان قوانین میں ردوبدل نہیں ہوسکے گا۔ ہائی کورٹ کو سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہوگا، آرٹیکل 175 اے ، جوڈیشل کمیشن کے موجودہ ارکان برقرار رکھے گئے ہیں،4 ارکان پارلیمنٹ شامل کیے جائیں گے ، کمیشن کے ایک تہائی ارکان چیئرپرسن کو تحریری طور پر اجلاس بلانے کی استدعا کرسکتے ہیں۔ چیئرپرسن 15 روز میں اجلاس بلانے کا پابند ہوگا، اجلاس نہ بلانے پر سیکرٹری کو 7 روز میں اجلاس بلانے کا اختیار ہوگا۔ آرٹیکل 179 میں ترمیم کی جائے گی، چیف جسٹس کی مدت زیادہ سے زیادہ 3 سال ہوگی، چیف جسٹس کی عمر 65 برس سے کم بھی ہوگی تو ریٹائر ہو جائیں گے ، آرٹیکل 63 میں ترمیم ہوگی اور دہری شہریت کا حامل الیکشن لڑنے کے لیے اہل قرار پائے گا، منتخب ہونے پر 90 روز میں غیر ملکی شہریت ترک کرنے کی پابندی ہوگی، آرٹیکل 63 اے میں ترمیم ہوگی، منحرف رکن کا ووٹ شمار ہو گا۔
آرٹیکل 48 میں سے وزیر اور وزیرمملکت کے الفاظ حذف کیے جائیں۔ صرف کابینہ یا وزیراعظم کی صدر کو بھجوائی گئی سمری کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیاجا سکے گا۔ آرٹیکل 81 میں ترمیم سے سپریم جوڈیشل کونسل اور انتخابات کیلئے فنڈز لازمی اخراجات میں شامل ہوں گے ۔ آرٹیکل 111 میں ترمیم سے صوبائی مشیروں کو بھی اسمبلی میں خطاب کا حق دیا جائے گا۔ آرٹیکل184 (3) کے تحت ازخود نوٹس یا ابتدائی سماعت کے مقدمات میں سپریم کورٹ صرف درخواست میں کی گئی استدعا کی حد تک فیصلہ جاری کر سکے گی۔ آرٹیکل 186 اے میں ترمیم سے سپریم کورٹ مقدمہ،اپیل کسی اور ہائی کورٹ کو منتقل کرنے کی مجاز ہوگی۔ سپریم کورٹ مقدمہ،اپیل خود کو منتقل کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
آرٹیکل 175میں بھی ترمیم کی جارہی ہے جس کے تحت اب ججز کی تقرری کا صرف جوڈیشل کمیشن کا اختیار ختم کر کے اس میں پارلیمانی کمیٹی کو بھی اختیار دیا جارہا ہے ، ججز کی تقرری کےلئے جوڈیشل کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس کریں گے تاہم اسکے ممبران میں چار پارلیمنٹ کے ممبران شامل ہوں گے جن میں سے دو سینیٹ ، دو قومی اسمبلی کے ارکان ہوں گے اور اپوزیشن اور حکومت کو برابر کی نمائندگی دی جائےگی ،وزیر قانون اور اٹارنی جنرل بھی اس کمیشن کے ممبر مقرر کئے جائیں گے ،سپریم کورٹ میں پریکٹس کا 15سالہ وکالت کا تجربہ رکھنے والے اس وکیل کو کمیشن کا رکن دو سال کےلئے بنایا جائےگا اور اس کی نامزدگی پاکستان بار کونسل کی طرف سے آئیگی ۔مسودے کے مطابق آرٹیکل 177میں جو نئی ترمیم لائی جارہی ہے اس کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا جج بننے کےلئے اہل نہیں ہوگا جس کے پاس پاکستان کےعلاوہ کسی اور ملک کی بھی شہریت ہو، ہائیکورٹ کے جج بننے کی اہلیت پانچ سال کی پریکٹس مقرر کی جارہی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے جج بننے کےلئے 15سالہ وکالت کا تجربہ لازمی قرار دیا جارہا ہے آرٹیکل 179میں جو ترمیم تجویز دی گئی ہے ،چیف جسٹس کی مدت تین سال ہوگی اور اگر اس کی عمر 65سال سے کم بھی ہوگی تو انہیں اپنے عہدے سے ریٹائرڈ تصور کیا جائیگا ،آرٹیکل 191Aمیں جو ترمیم تجویز دی گئی ہے اس کے تحت آئینی بینچ تشکیل دیا جائیگا ، بینچ کی تشکیل جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ہوگی اور اس میں ہر صوبے سے نمائندگی دی جائیگی ۔