حکمران اتحادکو مجوزہ آئینی ترامیم منظور کرانے کے حوالے سے نمایاں کامیابی حاصل ہوگئی

تحریر: راشد حسین عباسی

حکمران اتحاد کو مجوزہ آئینی ترامیم منظور کرانے کے حوالے سے نمایاں کامیابی حاصل ہوگئی اور بظاہر اس نے اس ضمن میں پارلیمنٹ میں مطلوبہ تعداد پوری کرلی ہے، جاتی امراء میں مسلم لیگ (ن) کے صد نواز شریف کی میزبانی میں آئینی ترامیم سے متعلق سیاسی قائدین کی بڑی بیٹھک ہوئی ،جس میں صد آصف علی زرداری، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن شریک ہوئے،اس موقع پرمسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے عدالتی اصلاحات پر اتفاق رائے کرلیا جس کی تصدیق نائب وزیراعظم اسحاق ڈارنے بھی کی،ان کاکہناتھاکہ عدلیہ سے متعلق آئینی ترمیم پر تین پارٹیوں کا اتفاق رائے ہوچکا ، دیگر مجوزہ ترامیم سے متعلق آئندہ دنوں میں پیشرفت ہوجائےگی، اس سے پہلے گزشتہ ماہ حکمران اتحاد تمام ترکوششوں کے باوجود26 ویں آئینی ترمیم کابل پارلیمنٹ میں پیش کرنے میں ناکام رہاتھا ،دراصل حکومت کی طرف سے جس طریقے سے آئینی ترامیم کوپارلیمنٹ سے منظور کرانے کی کوشش کی گئی وہ قطعی طور پر جمہوری تقاضوں اور اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتاتھا، حکومت کی ناقص حکمت عملی اس کے لیے سبکی کا باعث بنی تھی جسےاتوار کو چھٹی کے روز خصوصی طور پر بلائے گئے سینیٹ اورقومی اسمبلی کے اجلاس بارہاموخر اور بعدازاں دونوں ایوانوں کے اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کرناپڑے تھے،دیکھاجائے تو حکومت کی جانب سےغیرضروری طور پر مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے کو بدستور پُراسراریت کے حصار رکھے جانے سے ابہام پیداہوا تھا،طرح طرح کی افواہوں اور قیاس آرائیوں نے جنم لیا، ہرکوئی اپنی رائے اور خدشات کا اظہارکرتارہااورعوامی حلقوں میں بھی شدیدبے چینی تھی ،ایک سیاسی جماعت کی طرف سے اس ضمن میں پروپیگنڈابھی گیا جس پر وزیرقانون اعظم نذیرتارڑنے قومی اسمبلی کے فلور پر وضاحت کرنا پڑی تھی،ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ حکومت ابتداء سے ہی مشاورت اور افہام و تفہیم کا راستہ اپناتی اور تمام پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لیتی،آئینی ترامیم کا مسودہ متعلقہ کمیٹی میں جاتا وہاں ان پر غور ہوتا حزب اختلاف کے ارکان کی بھی تجاویز اور رائے لی جاتیں پھر اس معاملے پرپارلیمان میں بحث کرائی جاتی تاکہ عوام کو پتہ چلتا کہ حکومت آئین میں کیا ترامیم کرنے جا رہی ہے اور اس سے ان کی زندگیوں پر کیا اثرات ہو ں گے؟ تو ممکن تھا کہ ترامیم متفقہ طور پر منظور کرلی جاتیں اور یہ معاملہ غیرضروری تاخیرکا شکار نہ ہوتا، بہرحال دیر آئے درست آئے کے مصدق حکومت نے اب آئینی ترامیم کے مسودے پر وسیع تر سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس پر اس کی تحسین کی جانی چاہئے
،حکومت کا مؤقف ہے کہ میثاق جمہوریت کے تحت کیے جانے والے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کی شقیں شامل ہیں،آئین کے آرٹیکل63 اےمیں ترمیم کرکے اسے اصل حالت میں بحال کرنے کامعاملہ بھی شامل ہے،جس کی سابق چیف جسٹس عطاء بندیال کی سربراہی میں بنچ نے صدارتی ریفرنس پر متنازع تشریح کی تھی،یقیناً عدالتی اصلاحات وقت کا تقاضا ہیں،خاص طور پر آئینی عدالت بنے یا آئینی بینچ، یہ راست سمت میں درست اقدام ہے،اس سے فوری انصاف کی فراہمی کی راہ ہموار ہو گی، سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ کم ہوگا، سیاسی مقدمات کی بھرمار سے اعلیٰ عدلیہ پر مقدمات کا بوجھ بڑھا اور عام سائلین کے مقدمات التواء کا شکار ہوتے ہیں،یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آئینی عدالت کی دنیا میں مثالیں موجود ہیں،دنیا کے 85 ممالک میں آئینی عدالتیں قائم ہیں اور یہ کامیاب ماڈل ہے، عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم انتہائی اہمیت کی حامل اور وقت کا تقاضا ہیں، پاکستان میں ماتحت عدالتوں کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اس لیے عدلیہ کی کارگردگی بہتر بنانے کے اقدام کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں، عوامی مفاد میں آئینی ترامیم پر پیشرفت یقینی بنانا اشد ضروری ہے اس لیے اسے ہرگزسرد خانے یا سیاست کی نذر نہیں ہونا چاہئے لیکن اس حوالے سے اتفاق رائے ضروری ہے، مجوزہ ترامیم کی اہمیت کومدنظر رکھتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، جو ایک زیرک اور تجربہ کار سیاست دان ہیں، نے حکومت کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے اور اپنی تجاویز پیش کیں اور بالآخر اتفاق رائے بھی ہو گیا، امید ہے کہ مولانافضل الرحمان پی ٹی آئی کو آئینی ترامیم پر مشاورت کا حصہ بننے یا اپنے تجاویز پیش کرنے پر قائل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے، پی ٹی آئی کو خود بھی اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرنی چاہئے اور مخالفت برائے مخالفت کی بجائے عوامی مفاد میں ہونے والی قانو ن سازی کا حصہ بننا چاہئے، خصوصی پارلیمانی کمیٹی بھی قائم ہے جس کا بنیادی مقصد ہی آئینی ترامیم مسودے پر اتفاقِ رائے قائم کرنا ہے، پی ٹی آئی کو کمیٹی کو اپنی تجاویز یا مسودہ پیش کرنا چاہئے، آئین ریاست کی سب سے اہم دستاویز ہے، اس میں ترامیم کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا کسی طور مناسب نہیں،اس میں کوئی دورائے نہیں پارلیمنٹ کی بالادستی ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے رویوں کی وجہ سے ہی مجرو ح ہوتی ہے، اس لیے اب سیاسی رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے، مجوزہ آئینی ترامیم پارلیمان کو مضبوط کرنے کا نادر موقع ہے اس موقع کو گنوانانہیں چاہئے ، پارلیمان کی مضبوطی اور بالادستی یقینی بنانے کے لیے تمام سیاسی قیادت کو مل کر کام کرناچاہئے ،سیاسی قائدین کو قانون سازی کے عمل اور آئینی معاملات کو سیاسی رنگ دے کر پروپیگنڈا کرنے کی بجائے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھناچاہئے،ذاتی مفاد کی بجائے قومی مفاد کو ترجیح دی جانی چاہئے، عوام توقع کرتے ہیں کہ سیاسی قیادت ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے ملک میں فوری اور سستے انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کی غرض سے کی جانے والی قانون سازی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گی ، ملکی اور عوامی مفاد کی قانون سازی سے پارلیمان اور سیاسی نظام پر عوام کا اعتماد بڑھے گا اور اس کا نتیجہ پارلیمان اور سیاسی نظام کی مضبوطی کی صورت میں برآمد ہوگا،اسی طرح   اجتماعی دانش کے بہترین نتائج کے حصول کے لئے باہمی مشاورت اور اتفاق رائےکی خاص اہمیت ہے،مثالی جمہوری روایات کا تقاضا ہے کہ بالخصوص حسّاس مسودوّں ،خاکوں، پیکیجز پر حزب اختلاف اور ایوان میں موجود چھوٹی پارٹیوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے تاکہ غوروفکر کا دائرہ وسیع ہو اور ممکنہ حد تک مؤثراوربہتر قانون سازی سامنے آئے۔

Comments (0)
Add Comment