شنگھائی تعاون تنظیم .عالمی حکمرانی میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت

تحریر: اعتصام الحق

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اپنے رکن ممالک کے درمیان اقتصادی ، سیاسی اور سلامتی کے تعاون کو فروغ دیتے ہوئے عالمی حکمرانی میں ایک اہم تنظیم کے طور پر ابھری ہے ۔ 2001 میں قائم ہونے والے ایس سی او نے اپنی رکنیت اور دائرہ کار کو بڑھایا ہے ، جو علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم بن گیا ہے ۔
ایس سی او کی ابتدا شنگھائی فائیو گروپنگ سے ہوئی ہے ، جس میں چین ، روس ، قازقستان ، کرغزستان اور تاجکستان شامل ہیں ۔ 2001 میں ، ازبکستان نے شمولیت اختیار کی ، اور تنظیم کو باضابطہ طور پر قائم کیا گیا ۔ برسوں کے دوران ، ایس سی او نے ہندوستان ، پاکستان ، ایران اور دیگر مبصر ممالک کو شامل کرنے کے لیے توسیع کی ہے ۔
ایس سی او کے بنیادی مقاصد میں علاقائی سلامتی اور استحکام کو فروغ دینا،اقتصادی تعاون اور تجارت کو بڑھانا،ثقافتی تبادلے اور عوام سے عوام کے تعلقات کی حوصلہ افزائی کرنا،توانائی ، نقل و حمل اور ٹیلی مواصلات میں تعاون کو فروغ دینا، شامل ہے ۔یہ تنظیم جن اصولوں پر کام کرتی ہے ان میں ، باہمی احترام اور اعتماد،اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، مساوات اور باہمی فائدے، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام شامل ہیں ۔

تعاون کے اہم شعبوں کی بات کی جائے تو سلامتی، انسداد دہشت گردی ، انسداد منشیات ، اور علاقائی سلامتی تعاون کے ساتھ تجارتی سہولت ، سرمایہ کاری اور علاقائی اقتصادی انضمام میں گہرے تعاون کے امکانات موجود ہیں ۔اس کے علاوہ توانائی کی بات کی جائے تو تیل ، گیس اور قابل تجدید توانائی میں تعاون اس تنظیم کا ایک مثالی حصہ بن سکتا ہے جو اس کے رکن ممالک کی وجہ سے ہو گا ۔اس کے علاوہ علاقائی نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور ثقافتی تعاون میں عوام کے مابین تعلقات ، تعلیم اور ثقافتی تبادلے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے پاس دنیا کو دینے کے لئے کافی کچھ ہے ۔اس تنظیم کی سطح پر علاقائی سلامتی کے شعبے میں تعاون کو بہتر کر کے اس خطے کی امن کی مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔پاکستان بھارت اور ایران ایسے ممالک ہیں جہاں دہشت گردی نے کسی نہ کسی شکل میں ڈیرے جمائے ہوئے ہیں اور ان مماک کے ہمسایہ ممالک سے تعلقات میں بھی یہ ایک اہم عنصر ہے۔ساتھ ہی ایران کی موجودہ وقت میں مشرق وسطی کی سیاست میں اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا جہاں ایک ممکنہ بڑی جنگ کا خطرہ موجود ہے اور پھر روس اور یوکرین تنازعہ بھی ہے جو اس خطے سمیت عالمی سطح پر بھی کسی بھی وقت ایک بڑی محاذ آرائی کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔لہذا اس پلیٹ فار م کو استعمال کر کے موجودہ وقت کے دو بڑے مسائل کو حل کرنے میں مد کی جاسکتی ہے۔ گو کہ مسئلہ کشمیر کو اب تک اس پلیٹ فارم پر اس انداز میں اجاگر نہیں کیا گیا جس انداز میں اس کا حق ہے لیکن کچھ تنظیمی اصول جہاں اس کی اجازت نہیں دیتے وہیں ملاقاتیں اور رابطےاس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
ای سی او کے بنیادی اور ملحقہ رکن ممالک کو دیکھا جائے تو اکثریت ممالک وہ ہیں جو اب کسی نہ کسی صورت میں بیلٹ اینڈ روڈ اینیشی ایٹو سے وابستہ ہیں۔اس حوالے سے چین کے کردار کی تعریف نہ کی جائے تو زیادتی ہو گی جس نے اس پلیٹ فارم کو استعمال کر کے رکن ممالک کو ایک بڑے مقصد اور مشترکہ خوشحالی سے جوڑ دیا ہے اور مستقبل میں سٓروس کی جانب سے پیش کردہ نارتھ کوریڈور دنیا کی ایک ایسی بیلٹ کی تعمیر کر سکتا ہے جو بر اعظموں کو جوڑ دے گی ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اس تنظیم کے پاس جہاں کئی مواقع موجود ہیں وہیں اس ے کئی چیلنجز بھی درپیش ہیں۔چیلنجز کی بات کی جائے تو رکن ممالک کے درمیان مختلف مفادات اور ترجیحات،علاقائی سلامتی کے خدشات ، جیسے دہشت گردی اور انتہا پسندی اور اقتصادی عدم مساوات اور مسابقت سمیت عالمی طاقتوں کی مخالفت جیسے بڑے چیلنجز سے نمٹنا بہت اہم ہو گا اور اگر مواقعوں کی بات کی جائے تو ان میں رکنیت اور شراکت داری کو بڑھانا،علاقائی اقتصادی انضمام کو مضبوط بنانا،ٹیکنالوجی اور اختراع جیسے ابھرتے ہوئے شعبوں میں تعاون بڑھانا اور علاقائی استحکام اور سلامتی کو فروغ دینا شامل ہیں ۔ایک اہم خاصیت جو اس تنظیم کو حاصل ہے وہ اس میں اب تک کے مستقل اراکین کا جغرافیائی طور پر ایک ہونا ہے کو اسے دیگر تنظیموں سے ممتاز کرتا ہے ۔
شنگھائی تعاون تنظیم علاقائی تعاون اور استحکام کو فروغ دیتے ہوئے عالمی حکمرانی میں ایک اہم حیثیت اختیار کر چکی ہے ۔ توقع ہے کہ جس انداز میں ایس سی او اپنی مصروفیات اور کردار کو بڑھا رہی ہے ، یہ عالمی اقتصادی اور سلامتی کے منظر نامے کی تشکیل میں تیزی سے اہم کردار ادا کرے گی ۔

Comments (0)
Add Comment