اسلام آباد کی تینوں وکلاء تنظیموں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے 63 اے نظرثانی درخواست فوری واپس لینے کا مطالبہ کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ بار ، اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار اور اسلام آباد بار کونسل نے مشترکہ پریس کانفرنس کی اور تینوں نمائندہ بار ایسوسی ایشنز نے آئینی پیکج کو مسترد کر دیا ۔
اسلام آباد بار کونسل کے علیم عباسی کی دیگر عہداروں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کی ۔
علیم عباسی نے کہا کہ ہم صرف مسترد نہیں کرتے بلکہ ان کو روکنے کے لیے مزاحمت بھی کریں گے ، مخصوص شخصیات ، مخصوص سیاسی جماعتوں اور بدنیتی پر مبنی ترامیم کی جارہی ہیں ، اسلام آباد کی تینوں وکلا تنظیموں کا ترامیم رکوانے کے لیے مزاحمت کا اعلان کردیا۔
اسلام آباد بار کونسل کے علیم عباسی نے کہا کہ ان ترامیم کے بعد سپریم کورٹ کے پاس سیشن جج سے زیادہ کا اختیار نہیں ہو گا ، چھ ججز کا خط پسند نہیں آیا تو ان کو ٹھکانے لگانے کے لیے بھی ترمیم کی جارہی ہے ، اسلام آباد کی تینوں وکلا نمائندہ تنظیموں کا سپریم کورٹ بار سے 63 اے نظر ثانی واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔
گزشتہ روز اسلام آباد کے وکلاء کی نمائندہ تنظیموں کا مشترکہ اجلاس ہوا،
علیم عباسی نے بتایا کہ حکومت جو مجوزہ آئینی ترامیم لا رہی ہے اُس پر ہماری مشاورت ہوئی، اسلام آباد کے وکلاء کی نمائندہ تنظیمیں مجوزہ آئینی ترامیم کو مسترد کرتے ہیں،
ہم صرف مجوزہ آئینی ترمیم کو مسترد نہیں کرتے بلکہ مزاحمت بھی کرینگے،
یہ آئینی ترمیم بدنیتی پر مبنی ہیں، ایک شخص اور ایک جماعت کیلئے ترامیم لائی جا رہی ہیں،
یہ آئینی ترامیم آمریت پسندانہ سوچ اور آمرانہ قوتوں کی پسندیدہ ہیں ۔
علیم عباسی نے کہا کہ وزیراعظم اور صدر پاکستان بھائی لوگوں کی خواہش پر آئینی عدالت کا سربراہ مقرر کرینگے،مجوزہ آئینی ترامیم کے ذریعے جوڈیشل کا وجود ہی ختم کر دیا گیا،ہم شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ سینئر ترین جج چیف جسٹس بنے گا۔
راجہ علیم عباسی نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے 13 میں سے 7 لوگ حکومتِ وقت کے ہونگے، اس سازش میں چیف جسٹس سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں ، 68 سال عمر رکھ کر رستہ کھولا گیا کہ آپ ہمارے ساتھ ہوں گے تو ہم آپ کو نوازیں گے ، اس ترمیم پاس ہونے کے بعد کوئی باضمیر جج سپریم کورٹ ہائیکورٹ کام نہیں کر سکے گا ،
اسلام آباد کی تینوں وکلا تنظیموں کا 7 اکتوبر کو دن گیارہ بجے آل پاکستان وکلا کنونشن کرانے کا اعلان کردیا۔
کنونشن میں ملک بھر سے بار کونسلز اور وکلاء نمائندے شرکت کریں گے۔