دوستی کی مضبوط عمارت میں ایک اور مضبوط ستون کا اضافہ

اس پن بجلی گھر کی تعمیر سے مقامی افراد کو بھی بے پناہ فائدہ ہوا اور تقریبا 6000 سے زیادہ ملازمتیں عام افراد کو حاصل ہوئیں ۔سکی کناری پن بجلی منصوبہ دریائے کنہار پر واقع ہے

 

تحریر:اعتصام الحق ثاقب

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ میں چین پاک اقتصادی راہداری  کے اہم منصوبے سکی کناری ہائیڈرو پاور اسٹیشن کے پہلے یونٹ کو 12  اگست کو بجلی  کی پیداوار کے لیے سرکاری طور پر گرڈ سے منسلک کر دیا گیا ۔یہ عمل   تجارتی آپریشن کے حصول  میں   اس منصوبے کا ایک اہم قدم ہے۔ سکی کناری ہائیڈرو پاور اسٹیشن کی سرمایہ کاری اور تعمیر چائنا انرجی کنسٹرکشن اوورسیز انویسٹمنٹ کمپنی لمیٹڈ نے کی ہے۔ یہ ایک اہم منصوبہ ہے جسے چین پاکستان اقتصادی راہداری  میں عملی  اقدا مات کے سلسلے میں خاص اہمیت حاصل ہے  ۔

اس پن بجلی گھر کی تعمیر سے مقامی  افراد کو  بھی بے پناہ  فائدہ  ہوا اور تقریبا 6000 سے زیادہ ملازمتیں عام افراد کو  حاصل ہوئیں ۔سکی کناری پن بجلی منصوبہ  دریائے کنہار پر واقع ہے۔ اس منصوبے پر کل سرمایہ کاری تقریباً ایک ارب چھیانوے کروڑ امریکی ڈالر ہے۔ اس  منصوبے کے لیے پہاڑوں کا سینہ کاٹ کر 30 کلومیٹر لمبی سرنگ نکالی گئی ہے ۔ یہ ناران سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر بننے والے اپنی نوعیت کے منفرد اور انتہائی دشوار گزار پہاڑوں میں بننے والا بجلی کا منصوبہ ہے۔ اس کو ’رن آف دا ریور‘ پراجیکٹ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ قدرتی دریا ،  دریائے  کنہار کے 38 کلومیٹر رقبے پر توانائی کا ایک  منصوبہ ہے، جو پلدراں سے شروع ہو کر کاغان میں پارس کے مقام پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔

اسٹیشن کے منصوبے کی تعمیر جنوری 2017 میں شروع ہوئی، جس کی کل نصب شدہ صلاحیت 884 میگاواٹ ہے، اور یہ پاکستان کو ہر سال 3.2 بلین کلو واٹ آور صاف بجلی فراہم کر سکتا ہے۔بجلی پیدا کرنے کے لیے پہلے یونٹ کے گرڈ سے منسلک ہونے کے بعد، سکی کنار ی ہائیڈرو پاور اسٹیشن سے ہر سال 10 لاکھ سے زائد مقامی گھرانوں کو سستی اور صاف بجلی فراہم ہونے کی توقع ہے، جو پاکستان کے توانائی کے ڈھانچے کو ایڈجسٹ کرنے، طلب اور رسد کے درمیان فرق  کو کم کرنے اور بنیادی تنصیبات  کی تعمیر اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں مثبت کردار ادا کرے گا۔

ایک دہائی قبل جب سی پیک کا آغاز ہوا تو پاکستان کو توانائی  کی شدید قلت کا سامنا تھا ۔ لوگوں کو ایک دن میں 12 گھنٹے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سی پیک کے توانائی کے منصوبوں  کے ذریعے پاکستان نے  اپنے توانائی بحران پر قابو  پایا  ، بجلی کی درآمدات پر انحصار کم کیا  اور صنعتوں اور گھرانوں کے لئے مستحکم بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوششیں کیں ۔

سکی کناری  منصوبہ مکمل ہونے کے تیس برس بعد  بلا معاوضہ حکومت پاکستان کی ملکیت بن جائے گا۔ اکنامک سروے 2021-20 کے مطابق پاکستان میں بجلی کی کل پیداوار 37 ہزار میگاواٹ کے قریب ہے، جس میں  پانی سے پیدا ہونے والی بجلی کا حصہ 9874 میگاواٹ یعنی 26 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ ایل این جی سے 7300 اور فرننس آئل سے 6200 میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے، جب کہ بقیہ حصہ کوئلے، قدرتی گیس، سولر، ہوا، اور دوسرے ذرائع سے پیدا کیا جاتا ہے۔سکی کناری منصوبے کی تکمیل سے پاکستان میں پانی سے بننے والی بجلی کے ذخائر میں تقریباً نو فیصد کا اضافہ ہو جائے گا جس سے فرنس آئل اور ایل این جی جیسے مہنگے ذرائع پر انحصار میں کمی آئے گی۔

Comments (0)
Add Comment