پیرس: پاکستان سے تعلق رکھنے والے تاریخ ساز ایتھلیٹ ارشد ندیم نے انکشاف کیا کہ وہ کرکٹر بننا چاہتے تھے لیکن انہیں مواقع نہیں ملے۔
تفصیلات کے مطابق پیرس میں جاری کھیلوں کے عالمی میلے اولمپکس 2024 میں طلائی تمغہ اپنے نام کرنے کے بعد ارشد ندیم نے پریس کانفرس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے اپنی جدوجہد بیان کی۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ جیولین تھروور بنیں گے بلکہ ان کی خواہش تھی کہ وہ کرکٹر بنیں، کیونکہ ان کی باؤلنگ بہت بہترین ہے اور ماضی میں پنجاب سے صوبائی سطح پر کھیل چکے ہیں۔
ارشد ندیم نے بتایا کہ عدم سہولت کی وجہ سے مجھے کرکٹ چھوڑنی پڑی، اس کے علاوہ میں فٹ بال اور کبڈی بھی بہت اچھی کھیلتا تھا، لیکن تمام کھیل چھوڑ کر اسکول میں ہی ایتھلیٹکس شروع کی۔
انہوں نے بتایا ابتدا مقامی سطح پر جیولین تھرو کے علاوہ فار تھرو، شارٹ گڈو، لانگ جمپ، ہائی جمپ، ٹرپل جمپ، 100 میٹر وغیرہ مختلف کھیل کھیلے، ہمیشہ بہترین ایتھلیٹ رہا۔
ارشد ندیم کا کہنا ہے کہ انہوں نے صوبائی سطح پر مختلف ایتھلیٹس کھیلوں میں پرفارم کیا اور ہمیشہ پوزیشن حاصل کی۔
کھلاڑی نے بتایا کہ ان کے کوچ نے جیولین تھرو کو مستقل طور پر اپنانے کا مشورہ دیا کیونکہ ان کی جسامت اچھی ہے، بعدازاں بھائی نے بھی یہ ہی مشورہ دیا کیونکہ کرکٹ میں بطور ٹیم کھیلنا ہوتا ہے اور ٹیم میں اپنی جگہ بنانا مشکل کام ہے جبکہ ایتھلیٹ انفرادی طور پر کھیلتا ہے۔
واضح رہے کہ ارشد ندیم نے پاکستان کو 40 سال بعد گولڈ میڈل جتوایا ہے۔ یہ انفرادی مقابلوں میں پاکستان کا پہلا گولڈ میڈل بھی ہے۔
انہوں نے اولمپکس کی تاریخ کی سب سے بڑی و لمبی 92.97 میٹر کی تھرو کر کے اولمپک ریکارد اور ایشیا ریکارڈ قائم کیے جبکہ جیولین تھرو کے فائنل راؤنڈ میں 2 بار 90 میٹر کا حدف عبور کر کے اولمپکس کی 116 سالہ تاریخ رقم کی۔