آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر فی الفور نظر ثانی کی جائے، اکرم فرید

بجلی کی مہنگی قیمتوں کی وجہ سے انڈسٹری تباہ ہو کر رہ گئی ہے :آدھے سے زیادہ انڈسڑی بند ہو چکی ہے ۔، بجلی کے اس ٹیرف میں انڈسٹری چلے گئی یا آئی پی پیز چلیں گئے : شرکاء

اسلام آباد :آجروں کی تنظیم ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان(آئی ایف پی)کےچیئرمین سنٹرل میاں اکرم فرید نے آجروں کی ایک ہنگامی میٹنگ سے خطاب کر تے ہویے کہا کہ حکومت انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ تمام معاہدوں کو ری نیگوشیٹ کرے اوربغیر کسی کپیسٹی چارجز کے سستے ذرائع سے بجلی حاصل کی جائے ۔ایم اکرم فرید نے بجلی کے بے تحاشا نرخوں کی وجہ سے مختلف صنعتوں کے بڑے پیمانے پر بندش کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا اس کے نتیجے میں ملک بھر میں بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، بجلی کی بے تحاشہ نرخوں کی وجہ سے آدھے سے زیادہ انڈسٹری بند ہو چکی ہے، آئی پی پیز کے 4 ایسے پلانٹ ہیں جو بغیر بجلی کی پیدا کیے جنوری سے اب تک کیپسٹی اور جرنیشن کے مد میں 450 ارب لے چکے ہیں ،گردشی قرضے اور ایندھن کی قیمت کے نام پر پچھلے دو سال کے دوران بجلی کی قیمت میں جو اضافہ کیا گیا ہے اس نے بجلی مہنگی کرنے کے پچھلے پچاس سالہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں ، اس وقت گردشی قرضہ 2300 ارب روپے کے قریب ہے تو اس میں کپیسٹی پیمنٹس کا حجم 2000 ارب روپے سے زیادہ ہے۔یہ وہ رقم ہے جو بجلی گھروں کو اُن کی زائد مگر ناقابلِ استعمال پیداوار کی مد میں ادا کی جاتی ہے اس وقت بجلی کی پیداواری لاگت آٹھ سے دس روپے اور ترسیلی نظام کے چارجز فی یونٹ ڈیڑھ سے دو روپے ہیں‘ جبکہ تقسیم کار کمپنیوں کے اخراجات فی یونٹ پانچ روپے ہیں‘ مگرکیپسٹی چارجزفی یونٹ 18 روپے پڑتے ہیں ۔ یعنی بجلی کی پیداوار‘ ترسیل اور تقسیم کے مجموعی اخراجات تقریباً 17 روپے ہیں اور کپیسٹی چارجز 18 روپےہے۔ کپیسٹی چارجز زائد پیداوار‘ جو استعمال نہ ہو رہی ہو ‘ اُس پر عائد ہوتے ہیں‘ مگر یہاں نجی بجلی گھر اپنی کپیسٹی سے خاصی کم پیداوار پر بھی کپیسٹی پیمنٹ 100 فیصد پیداوار کی وصول کررہے ہیں۔ کوئی بھی نجی پاور یونٹ سو فیصد کپیسٹی پر نہیں چلایا جارہا۔ زیادہ تر 30سے 50فیصد کپیسٹی پر چلائے جا رہے ہیں مگر کپیسٹی چارجز سو فیصد ۔ ملک عزیز ایسے ہی تو اس خطے میں سب سے مہنگی بجلی پیداکرنے والا ملک نہیں بن گیا‘ جہاں گھریلو صارفین کو 60روپے اور کمرشل صارفین کو 80 روپے فی یونٹ بجلی مل رہی ہے جبکہ صنعتی بجلی کے نرخ بھی علاقائی اوسط سے دوگنا زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے آئی پی پیز سے بات کرنی چاہیے۔ انرجی کا اتنا مہنگا ٹیرف سے انڈسٹری کو چلانا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے شرکاہ کو بتایا کہ آئی پی پیز نے 50 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی لیکن 400 ارب روپے کمائے۔اور صارفین سے کیپسٹی چارجز کے طور پر 73 ارب روپے وصول کیے جا رہے ہیں۔ آئی پی پیز کے کچھ پلانٹس نے جنوری، فروری اور مارچ میں صفر کی سپلائی دی تھی لیکن ہر ماہ 10 ارب روپے ادا کیے گئے،۔ بجلی کے نرخ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ سالانہ 240 ارب روپے کیپیسٹی چارجز کی مد میں عوام کی جیبوں سے نکالے جا رہے ہیں جبکہ 25 فیصد انڈسٹری بند ہو چکی ہے،‘‘ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا۔انہوں نے بتایا کہ 2015 میں اوسطاً 13 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال کی جا رہی تھی جب کہ اس وقت کیپسٹی چارجز 200 ارب روپے تھے۔ لیکن اب صلاحیت کی ادائیگی 2 ٹریلین روپے تک بڑھ گئی ہے لیکن 2024 میں کھپت اب بھی 26,000 میگاواٹ ہے جس کی کل صلاحیت 43,400 میگاواٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ ان تمام آئی پی پی پلانٹس کو بجلی کی جزوی یا صفر پیداوار کے ساتھ 2 ٹریلین روپے ادا کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے آئی پی پی معاہدوں سے ملک نہیں چل سکتا۔(IPP) کے معاہدوں کو مسترد کیا۔شراہ نے کہا کہ صنعتیں بجلی کے اس ٹیرف کے ساتھ نہیں چل سکتیں۔ ہمیں سستے ذرائع سے بجلی حاصل کرنی چاہیے۔ ۔ شراکاہ نے کہا کہ انرجی آڈٹ ایک بین الاقوامی آزاد فرم کے ذریعے کرایا جانا چاہیے۔ کاروبار ترقی کرے گا، صنعتیں چلیں گی تو ہی ملک ترقی کرے گا۔ ۔کاروباری رہنماؤں نے نشاندہی کی کہ کچھ آئی پی پی پلانٹس نے جنوری، فروری اور مارچ میں صفر کی سپلائی فراہم کی لیکن ہر ماہ 10 ارب روپے وصول ہوئے۔ بجلی کی مہنگی قیمت ناقابل برداشت ہے ۔ سالانہ 2 کھرب روپے 240 ملین لوگوں کی جیبوں سے کیپیسٹی چارجز کے طور پر نکالے جاتے ہیں اور 25 فیصد انڈسٹری بند ہو چکی ہے۔میٹنگ میں فلور ملز انڈسٹری ، سٹیل اندسٹری ، ماربل ، ثوپ ، آئل اینڈ گھی ، ہوٹل انڈسٹری ، فارماسوٹیکل انڈسٹری ،آئی ٹی اینڈ سافٹ ویر ،آٹو انڈسٹری ،رائیس ایکسپورٹر انڈسٹری اور دیگر انڈسٹری سے نمائندگان نے شرکت کی انہوں نے مزید کہا کہ 2015 میں اوسطاً 13,000 میگاواٹ بجلی استعمال کی گئی جس کی 2000 میگاواٹ صلاحیت کے لیے 200 ارب روپے کی گنجائش چارج کی گئی۔ اب، صلاحیت کی ادائیگی 2 ٹریلین روپے ہے، اور 2024 کی کھپت اب بھی 13,000 میگاواٹ ہے جس کی صلاحیت 43,400 میگاواٹ ہے۔ ان تمام آئی پی پی پلانٹس کو بجلی کی جزوی یا صفر پیداوار کے ساتھ 2 کھرب روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ ایسے آئی پی پی معاہدے ملک کے لیے غیر پائیدار ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ ایسے آئی پی پیز ہیں جو آپریٹ نہیں ہو رہے لیکن حکومت انہیں بھاری رقم ادا کر رہی ہے۔ ایم اکرم فرید نے مزید کہا کہ پاکستان کا موجودہ بجلی کا ٹیرف انڈیا ور بنگلہ دیش سے دگنا ہے ۔ ۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز اس بھاری صلاحیت کے چارجز کے خلاف یا تو سپلائی نہیں کر رہے ہیں یا جزوی طور پر سپلائی کر رہے ہیں۔ انڈسٹری ایسے حالات میں کام نہیں کر سکتی۔ ۔ اور حکومت کو چاہیے کی سولر پر انسینٹو دے اور جن ایہ پی پیز کی کیپسٹی چارجز کی مد میں قیمت پوری ہو چکی ہے ان کو کیپسٹی چارجز اا نہ کرے ، عوام اب مزید بجلی کا بوجھ برداشت کرنے کی طاقت نہیں ، عوام میں اب ازطراب بڑھ رہا ہے ۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت جلد ہی آئی پی پیز سے نمٹنے کیلئے ٹھوس حکمت عملی وضع کرے گی اور قومی مفاد میں صنعت کیلئے بجلی کی سستی قیمتوں کو یقینی بنائے گی۔

Comments (0)
Add Comment