اسلام آباد:چینی کمپنی پاکستان میں ہائبرڈ اور الیکٹرک بسیں تیار کرے گی جس کے لیے اس کا حکومت سندھ سے معاہدہ طے پا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق معاہدے کے مطابق چینی کمپنی یوٹونگ کراچی میں اپنا پلانٹ لگائے گی اور پہلے مرحلے میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بسیں تیار کی جائیں گی۔ یوں آنے والے دنوں میں ملکی شاہراؤں پر ایک بار پھر میڈ ان پاکستان بسیں چلتی نظر آئیں گی۔ اس پلانٹ میں ناصرف صوبہ سندھ بلکہ ملک کے دیگر صوبوں کی ضرورت کے مطابق بسیں تیار کی جائیں گی۔
ان میں سے بیشتر بسیں مختلف شہروں میں چلنے والی میٹرو اور پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
کراچی سمیت ملک بھر میں ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرنے والے مسافر آرام دہ سفر کرنے کے لیے بیرون ممالک سے درآمد کی گئی بسوں میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی لیے بڑے ٹرانسپورٹرز سمیت نچلی سطح پر ٹرانسپورٹ کا کام کرنے والے بھی اب بیرون ممالک سے درآمد کی گئی بسوں کو خریدنے کی کوشش کررہے ہیں۔
صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چین کی بسیں بنانے والی بڑی کمپنی یوٹونگ کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں۔ آئندہ تین ماہ میں کمپنی کراچی میں اپنا پلانٹ لگانے جا رہی ہے۔ امید ہے، جلد ہی پاکستان کی طلب کے مطابق بسیں تیار کی جانے لگیں گی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی طور پر الیکٹرک وہیکل (ای وی) اور ہائبرڈ ڈیزل بسیں تیار کی جائیں گی کیوںکہ اس وقت ایسی بسوں کی طلب ہی زیادہ ہے جس کے باعث ناصرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ صنعت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘
پاکستان میں مقامی سطح پر بسوں کی تیاری کے معاہدے کو آٹو سیکٹر کے ماہرین مقامی صنعت کے لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔
آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود علی خان نے بتایا کہ ’پاکستان اپنی ضرورت کے مطابق بسیں خود بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ چین کی مدد سے پاکستان کئی شعبوں میں مثالی کام کر رہا ہے۔ چینی کمپنی کراچی میں بسیں بنانے کا پلانٹ لگاتی ہے تو اس سے پاکستان اور چین دونوں کو فائدہ ہو گا۔‘
’پاکستان میں ماضی میں یومیہ تقریباً تین سے چار بسیں مینوفیکچر کی جاتی رہی ہیں، اب جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ پلانٹ لگایا جائے گا تو امید ہے ماہانہ 50 سے 60 بسیں آسانی سے مینوفیکچر کر لی جائیں گی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ٹرانسپورٹ کے شعبے میں تیزی سے آگے کی طرف بڑھ رہا ہے، جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ بسیں اگر مقامی سطح پر تیار ہوں گی تو اس سے منسلک کئی شعبوں کو فائدہ ہو گا۔
مشہود علی خان کے مطابق ’ماضی میں پاکستان 65 فیصد انجینیئرنگ ورک اور 100 فیصد باڈی بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس شعبے کو نظر انداز کیا گیا اور یہ صنعت تباہ حالی کا شکار ہو گئی۔‘
سنہ 1985 سے پاکستان میں بسیں مینوفیکچر کرنے والی جاپانی کمپنی سے منسلک سید ارشد علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بسیں مینوفیکچر کرنے کی صنعت کو ایک بار پھر فعال کرنے کے لیے جو کوششیں کی جارہی ہے وہ ملک کے لیے سودمند ثابت ہوں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ چینی کمپنی کے کراچی میں پلانٹ لگانے کے اعلان کے بعد کئی شعبے ایک بار پھر فعال ہوں گے۔
ارشد علی کے مطابق ’کراچی میں بسوں کی مینوفیکچرنگ کے لیے تین شفٹوں میں کام ہوتا تھا۔ فیکٹری میں ایسی چہل قدمی ہوا کرتی تھی کہ عید کے تہوار بھی اکثر اوور ٹائم کرنے میں گزر جایا کرتے تھے۔ پھر اس صنعت کو کسی کی نظر لگ گئی اور اس صنعت سے منسلک لوگ اپنا کاروبار تبدیل کرنے لگے۔ دن میں دو سے تین بسیں بنانے والی کمپنی مہینے میں 10 سے 15 بسیں تیار کرنے لگی، اور ان کے لیے بھی بیش تر سامان بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا تھا۔ میڈ اِن پاکستان بسوں کو کبھی لوگ فخر سے شاہراؤں پر دیکھا کرتے تھے لیکن یہ باب اب تمام ہوا۔‘
وہ پرامید ہیں کہ آنے والے دنوں میں ایک بار پھر کراچی سمیت ملک بھر کی سڑکوں پر میڈ اِن پاکستان بسیں چلتی نظر آئیں گی۔ چین کی مدد سے ملک میں جو پلانٹ لگے گا وہ ماضی کی ان یادوں کو تازہ کرے گا۔ اور آنے والے دنوں میں ایک بار پھر لوگ اپنے ملک میں تیار کی گئی بسوں میں سفر کرتے نظر آئیں گے۔
یاد رہے کہ سال 2022 میں حکومت سندھ کی جانب سے چینی کمپنی سے پاکستان میں بسیں بنانے کا پلانٹ لگانے پر بات کی گئی تھی اور مختلف پہلوؤں کا دو سال تک جائزہ لینے کے بعد چینی کمپنی نے پاکستان میں پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔