تحریر: اعتصام الحق ثاقب
نیو گودار انٹرنیشنل ایئرپورٹ (این جی آئی اے) کے بیس پاکستانی اہلکار آج کل چین میں موجود ہیں جنہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے چین میں اپنے "ملٹی ڈسپلنری ٹریننگ کورسز” کا آغاز کیا ہے ۔ ٹریننگ پروگرام کے تحت چائنا ایئرپورٹ کنسٹرکشن گروپ ہوائی اڈے کے آپریشن کو آزادانہ طور پر چلانے کے لیے پاکستانی عملے کو تکنیکی اور عملی معلومات منتقل کرے گا ۔ اس دورے میں پاکستانی وفد نے چین کے شہر ہینان میں مقامی ہوائی اڈوں اور ون اسٹاپ ہوائی جہاز کی دیکھ بھال کے اڈے کا دورہ کیا ، اور تعاون کے مواقع تلاش کیے ۔تربیت کے دوران ہونے والے تمام اخراجات چائنا ایڈ کے تحت ہوں گے ۔
اپریل 2015 میں چین کےصدر شی جن پھنگ نے پاکستان کا ایک تاریخی دورہ کیا تھا اور اس دورے میں 2013 ، چین کے تجویز کردہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کی چھتری تلے ایک فلیگ شپ منصوبے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا آغاز کیا گیا ۔46 ارب ڈالر سے اپنی ابتدا کرنے والا یہ منصوبہ بعد میں 62 ارب ڈالر تک پہنچا جس میں سی پیک سے منسلک توانائی اور انفراسٹرکچر کے متعدد ہائی پروفائل منصوبے شامل ہیں۔
پاکستان کی معاشی اور سیاسی ٌپالیسی میں چین کی خاص اہمیت کے ناطے ہر دور میں چین کے ساتھ تعلقات کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے اور اب چین پاک اقتصادی راہداری کے بعد یہ راہداری بھی ہر موسم کے تعلقات میں انتہائی اہم ہے۔ بحیرہ عرب میں آبنائے ہرمز کےاہم اسٹریٹجک مقام پر واقع گوادر بندرگاہ ، جو کبھی تباہ شدہ حالت میں تھی لیکن اب سی پیک کی وسیع تر ترقی کے ایک حصے کے طور پر بحالی کے بعد 2021 میں مکمل طور پر آپریشنل ہوئی ۔
چین اور پاکستان نے سی پیک کے تحت متعدد منصوبوں پر تعاون کیا ہے جن کا مقصد گوادر خطے میں سماجی و اقتصادی چیلنجز سے نمٹنا ہے، جن میں سے کچھ پہلے ہی مکمل ہوچکے ہیں اور کچھ پائپ لائن میں ہیں۔سی پیک کے آغا ز کے بعد ہی سے یہ منصوبہ کیوں کہ دنیا بھر کی نظروں میں آیا اور بعد میں اسے بیلٹ اینڈ روڈ اینیشی ایٹو کے بڑے منصوبے کا ایک پائلٹ منصوبہ بھی قرار دے دیا گیا تو اسے دنیا بھر سے کئی خدشات اور خطرات کا سامنا بھی رہا ۔بلوچستان اور ملک کے سیاسی حالات،اس سے ملحقہ منصوبوں میں تعطل،بدعنوانی کے الزامات اور دہشت گردی کے واقعات نے اس منصوبے کو کئی انداز میں متاثر کیا۔
لیکن اس حقیقت میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان سی پیک کی کامیابی کا لازمی جزو ہے کیوں کہ اسی صوبے میں موجود گوادر کی بندرگاہ نے بیلٹ اینڈ روڈ کے عظیم منصوبے کو مشرق وسطی سمیت دیگر علاقوں کو وسطی ایشیا سے ملانا ہے اور جو راہداری کی مرکزی خصوصیت ہے ۔گوادر بندر گاہ کو اسی لئے جنوبی ایشیا میں چین کے بی آر آئی کے اہم مراکز میں سے ایک کہا جاتا ہے ۔
چین پاکستان دوستی میں دراڑ ڈالنے کی تخریبی کار راوائیاں تو ایک جانب دوسری جانب صرف گوادر بندرگاہ کے منصوبے کو سبوتاژ کر نے کے لئے کئی کوششیں ہو چکی ہیں ۔نومبر 2018 میں تین مسلح افراد نے کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملہ کیا تھا، جو سی پیک اور گوادر بندرگاہ سمیت پاکستان میں چینی مفادات کی نگرانی کرنے والا ایک اہم سفارتی مشن ہے۔ چھ ماہ بعد، ذیلی قوم پرست عسکریت پسندوں نے کوسٹل ہائی وے پر 14 سیکیورٹی اہلکاروں کے قتل اور گوادر میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری قبول کی، جو گوادر منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی ایک بڑی کوشش تھی ۔لیکن ان سب تخریبی کوششوں کے باوجود پاکستان اور چین آج بھی اپنے اس عزم میں پختہ ہیں کہ سی پیک کی تکمیل چین پاکستان تعلقات کی تاریخی اور لازوال کامیابیوں میں ایک اور شاندار اور کامیاب منصوبہ ہو گا اور اس کے ثمرات صرف پاکستان اور چین کے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے عوام حاصل کریں گے۔