نئے بجٹ میں 2000 کلومیٹر چلی ہوئی غیرملکی گاڑیوں کی امپورٹ کی اجازت بھی ختم کی جائے
بیرون ملک سے مستقل سکونت کے لئے آنے والے پاکستانیوں کو امپورٹڈ گاڑیاں اپنے ہمراہ لانے کی سہولت پر نظر ثانی کی جائے
مافیا بیرون ملک پاکستانیوں سے 100 ڈالر میں اُن کا پاسپورٹ خرید لیتا ہے جسے بڑی مقدار میں گاڑیاں پاکستان لانے کے لئے استعمال کیاجاتا ہے
نظام کے اندر سے کالی بھیڑیں اس مافیا کا ساتھ دیتی ہیں جس کا صفایا کرکے ملکی ریونیو بڑھ سکتا ہے
وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو آٹو موبائل انڈسٹری کو درپیش سنگین مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
65 سے 71 فی صد عالمی برانڈز اس وقت پاکستان کے اندر ہی اسمبل ہورہے ہیں جسے 2023 کی پہلی سہہ ماہی میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دینے کے حکومتی فیصلے سے بہت نقصان ہوا
رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں گاڑیوں کی امپورٹ میں684 فی صد اضافہ ہوا ہے
جولائی تا دسمبر2023 میں 16 ہزار 500 گاڑیاں بیرون ملک سے امپورٹ ہوئیں
اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2022-23 میں 21 سو استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان میں درآمد ہوئیں
وفاقی بجٹ 2023-24 میں امپورٹ پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کے حکومتی فیصلے سے ہونے والے نقصان کا تخمینہ 36 ارب روپے ہے،پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایکسیسوریز مینوفیکچررز’ (پی اے اے پی اے ایم) کے چئیرمین عبدالرحمن عزیز کی گفتگو
آٹو موٹیو انڈسٹری بند ہونے کے کنارے پہنچ گئی ہے،چئیرمین عبدالرحمن عزیز
چین اور بھارت کے طرح پاکستان میں پالیسی سازوں کو اپنی قومی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگاکر اصلاح احوال کرنے کی ضرورت ہے
چاہتے ہیں کہ معاشی بحالی کے ایجنڈے میں ہاتھ بٹائیں لیکن تن تنہا یہ ممکن نہیں
اس صنعت پر درآمدی پابندیاں لگانے کے بجائے ‘سی کے ڈی’ امپورٹ پر ڈیوٹیز میں اضافہ اچھی پالیسی ہے، سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین
اسلام آباد:
پاکستان میں مقامی سطح پر گاڑیاں بنانے والی صنعت نے بجٹ سے قبل وفاقی حکومت کو تجاویز پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بیرون ملک خاص طورپر جاپان سے منگوائی جانےو الی پرانی گاڑیوں کی درآمد پر مکمل پابندی عائد کی جائے تاکہ امپورٹڈ گاڑیوں کی بلیک مارکیٹ سے پاکستان کی آٹوموبائل صنعت اور ملکی معیشت کو پہنچنے والے اربوں روپے کے نقصان سے بچایا جاسکے اور ملکی ریونیو کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ ممکن ہوسکے۔ نئے بجٹ میں 2000 کلومیٹر چلی ہوئی غیرملکی گاڑیوں پر بھی پابندی لگائی جائے۔ ملک کے اندر گاڑیاں بنانے والی صنعت کے نمائیندوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ بیرون ملک سے مستقل سکونت کے لئے واپس آنے والے پاکستانیوں کو امپورٹڈ گاڑیاں اپنے ہمراہ لانے کی سہولت پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ اس سہولت کا ناجائز استعمال کرکے ملکی خزانے اور آٹوموبائل انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ پرانی گاڑیاں امپورٹ کرنے کا دھندہ کرنے والا مافیا بیرون ملک پاکستانیوں سے 100 ڈالر میں اُن کا پاسپورٹ خرید لیتا ہے جسے بڑی مقدار میں گاڑیاں پاکستان لانے کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔ اس ضمن میں نظام کے اندر سے کالی بھیڑیں اس مافیا کا ساتھ دیتی ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو آٹو موبائل انڈسٹری کو درپیش سنگین مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ ان نمائیندوں کا موقف ہے کہ پاکستانی معیشت کی میوفیکچرنگ کی بنیاد کمزور ہے۔ انہوں نے کہا کہ 65 سے 71 فی صد عالمی برانڈز اس وقت پاکستان کے اندر ہی اسمبل ہورہے ہیں جسے 2023 کی پہلی سہہ ماہی میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دینے کے حکومتی فیصلے سے بہت نقصان ہوا ہے اور مقامی سطح پر تیار شدہ گاڑیوں کی مانگ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں گاڑیوں کی امپورٹ میں684 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ جولائی تا دسمبر2023 میں 16 ہزار 500 گاڑیاں بیرون ملک سے امپورٹ ہوئیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2022-23 میں 21 سو استعمال شدہ گاڑیاں پاکستان میں درآمد ہوئیں۔ ‘پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو موٹیو پارٹس اینڈ ایکسیسوریز مینوفیکچررز’ (پی اے اے پی اے ایم) کے چئیرمین عبدالرحمن عزیز کے مطابق وفاقی بجٹ 2023-24 میں ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی وجہ سے یہ امپورٹ ہوئی جس کے تحت1800 سی سی تک کی استعمال شدہ گاڑیوں سے ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی تھی۔ ان کے مطابق اس حکومتی فیصلے سے ہونے والے نقصان۔کا تخمینہ 36 ارب روپے ہے۔جبکہ آٹو موٹیو انڈسٹری بند ہونے کے کنارے پہنچ گئی ہے۔ چین اور بھارت کے پالیسی سازوں نے اس حوالے سے اپنی قومی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ لگایا ہے، ہمیں بھی اسی انداز میں اپنی مقامی آٹو انڈسٹری کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 10 لاکھ سے زائد لوگ اس شعبے میں مزدوری کرکے اپنا رزق کمارہے ہیں۔ معاشی حالات کی وجہ سے پہلے ہی دیگر کی طرح مقامی گاڑیاں بنانے کی صنعت دباؤ کا شکار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ امپورٹڈ گاڑیوں کی ادائیگی غیرملکی کرنسی میں ہونے کی وجہ سے پاکستان کے فارن ریزروز پر بھی بوجھ بڑھتا ہے۔
65 سے 71 فی صد فاضل پرزے مقامی کمپنیاں بناتی ہیں لیکن 40 فی صد کے قریب فاضل پرزے متعلقہ ملک سے درآمد کرنے پڑتے ہیں۔ سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے اس پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صنعت پر درآمدی پابندیاں لگانے کے بجائے ‘سی کے ڈی’ امپورٹ پر ڈیوٹیز میں اضافہ اچھی پالیسی ہے۔