وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کی سکیورٹی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے مین گیٹ پر ٹک ٹاکرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز کھڑے ہوتے ہیں۔
خواجہ آصف نے نقطۂ اعتراض پر قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آپ یہاں دروازے سے نکلیں تو 40، 50 بندے کھڑے ہوتے ہیں، گیلریوں اور لفٹس کے پاس یوٹیوبرز اور موبائل لے کر کیمرے والے کھڑے ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میرا خدشہ سکیورٹی سے متعلق ہے، 90 کی دہائی میں کوئی ایم این اے مخصوص کارڈ جاری کرا سکتا تھا، اب یہاں پر کوئی بھی اندر آ سکتا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ سکیورٹی اسٹاف سے درخواست ہے کہ کم از کم تعداد میں لوگوں کو اسمبلی میں آنے دیں، نہ یہ موچی دروازہ ہے، نہ ڈی چوک ہے کہ لوگوں کو یہاں لائیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے پہلے بھی آپ کو بتا چکا ہوں، کل بھی آپ کو پیغام بھیجا، ارکانِ پارلیمنٹ بھی مخصوص تعداد میں مہمانوں کو لا سکتے ہیں۔
وزیر دفاع نے مزید کہا کہ داسو واقعے کی گاڑی 10 دن پاکستان میں گھومتی رہی، تقریباً پورے پاکستان میں گھوم کر وہ گاڑی داسو تک آئی، یہاں بھی کوئی ایسی گاڑی آ سکتی ہے۔
خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ اس بلڈنگ میں کوئی بھی بندہ کسی بھی وقت داخل ہو سکتا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ اس حوالے سے ہدایات دے دی ہیں، اس پر سخت کارروائی کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔