سپریم کورٹ آف پاکستان نے متنازع پریس کانفرنسز کرنے پر فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کو طلب کرتے ہوئے 2 ہفتے کا وقت دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ لوگوں کا ادارہ ہے آپ اس کا وقار کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
فیصل واوڈا پریس کانفرنس ازخود نوٹس پر سماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی، جس میں جسٹس عرفان سعادت خان اورجسٹس نعیم اختر افغان شامل تھے۔
سماعت شروع ہوتے ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ نے تقریر سنی اس پر توہین عدالت کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل بولے کہ یوٹیوب پر میوٹیڈ کاپی موجود ہے۔ چیف جسٹس بولے کہ اس طرح کی بات پر آپ تبصرا کرنے کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس سے کہیں زیادہ باتیں میرے خلاف ہوئی ہیں لیکن میں نے تحمل کا مظاہرہ کیا، سمجھا جائے گا کہ اپنے خلاف باتوں میں خود جج بن گیا ہوں، نظرانداز کرنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سوچا کہ ہم بھی تقریر کرلیں۔ برا کیا ہے تو نام لیکر مجھے کہیں، ادارے کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اگر ایک ایم این اے غلط ہے تو سارے پارلیمان کو غلط نہیں کہہ سکتے، قاضی فائز عیسیٰ
’ادارے عوام کے ہوتے ہیں، اداروں کو بدنام کرنا ملک کی خدمت نہیں، یہ لوگوں کا ادارہ ہے آپ اس کا وقار کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اسی عدالت نے مارشلاؤں کی بھی آئینی توثیق کی ہے، کہا جاتا ہے کہ باپ کے گناہوں کا ذمہ دار بیٹا نہیں ہوسکتا۔ اگر ایک ایم این اے غلط ہے تو سارے پارلیمان کو غلط نہیں کہہ سکتے‘۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میڈیا میں بھی اچھے اور برے صحافی موجود ہیں، ہمیں پتہ ہے ہماری عدلیہ کون سے نمبر پر ہے، گالیاں دینا مناسب نہیں، سب سے کمزور ہمارے معاشرے بندوق اٹھانے والا اس سے کمزور گالیاں دینے والا ہے، کیونکہ اس کے پاس دلائل نہیں ہوتے۔
میرے منہ سے کبھی آپ نے پارلیمنٹ کے خلاف کوئی بری بات سنی ہے؟ چیف جسٹس
’کمشنر آگیا کہ میں نے الیکشن میں دھاندلی کروائی، بھائی بتا دیں کہ میں نے دھاندلی کیسے کروائی، مہذب معاشرے میں توہین عدالت کے نوٹس اس لیے نہیں ہوتے کیونکہ وہاں لوگ اس طرح کی باتیں نہیں کرتے، گالی گلوچ سب رپورٹ کرتے ہیں اچھی باتیں کوئی رپورٹ نہیں کرتا‘۔
انہوں نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ پریس کلب جا کے فیصل واوڈا نے تقریر کی اس کے بعد مصطفی کمال آگئے، ہر چیز پر حملہ نہ کریں، آپ ادارے کو تباہ کر رہے ہیں۔ میں نے آئین کے تحت حلف اٹھایا ہے، میرے منہ سے کبھی آپ نے پارلیمنٹ کے خلاف کوئی بری بات سنی ہے؟
پارلیمنٹ بالادست ہے، چیف جسٹس
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو کوئی عذر ہے تو وہ درخواست دائر کرے، ہم توہین عدالت کا نوٹس جاری کررہے ہیں، کیا سینیٹر فیصل ووڈا اور رکن پارلیمنٹ مصطفی کمال کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے؟
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے حکمنامے میں لکھا کہ 15مئی کو فیصل ووڈا نے پریس کانفرنس کی، ہماری تنقید ہمارے منہ پر کریں، ہم انہیں بلا لیتے ہیں، دوسری پریس کانفرنس مصطفی کمال نے کی، عدالت کے زیر سماعت مقدمات پر بات کی گئی، پریس کانفرنس اخبارات میں اور ٹی وی پر چلائی گئی۔ پیمرا دونوں پریس کانفرنسز کا ریکارڈ پیش کرے۔