تحریر: اعتصام الحق ثاقب
چینی صدر شی جن پھنگ گزشتہ پانچ سالوں میں یورپ کے اس پہلے حالیہ دورے میں فرانس سربیا اور ہنگری گئے اور یورپی رہنماؤں سے چین کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ چین دنیا بھر کے لئے ایک اہم شراکت دار ہے اور تمام فریقین کے درمیان تعاون بڑھانے کے لئے تیار ہے ۔5 مئی سے 10 مئی کے اس دورے میں عالمی امن اور خوشحالی کے فروغ سمیت چین یورپ تعلقات اہم موضوعات رہے۔
یہ دورہ اس حوالے سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ حالیہ کچھ عرصے میں معاشی اور تجارتی میدان میں تحفظ پسندی ،الزامات بلاک سیاست اور مفادات کی جنگ میں عالمی عوامی مفادات کو کافی نقصان پہنچایا ہے ۔دنیا کی عمومی معاشی صورتحال جو کرونا وبا کے بعد ٹھیک سے نہیں سنبھلی تھی اسے اب دیگر خطرات کا بھی سامنا ہے۔اس کے علاوہ عالمی تنازعات نے اب تک کئی خدشات میں معاشی اعتبار سے پہلے ہی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے اور اب بھی انہیں تنازعات کی وجہ سے دنیا کی ایک بڑی آبادی پر خوراک ،موسمیاتی مسائل ، امن ،سلامتی اور معاشی خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ سو بڑھتے ہوئی تحفظ پسندی اور بڑھتے ہوئے جغرافیائی سیاسی تناؤ میں دنیا کی دو بڑی تجارتی منڈیوں کی جانب سے دیا گیااستحکام کی کوشش کا یہ پیغام عالمی سطح پر سراہا گیا ہے کہ امن اور تعاون کی کوششوں کا فروغ ہی اصل میں وقت کی ضرورت ہے ۔
پیرس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈیر لیئن کے ساتھ سہ فریقی اجلاس میں چین کے صدر نے کہا کہ چین یورپی یونین (ای یو) تعاون بنیادی طور پر تکمیلی اور باہمی طور پر فائدہ مند ہے اور چین ہمیشہ یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات کو اسٹریٹجک اور طویل مدتی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تعلقات کسی تیسرے فریق کو ہدف نہیں بناتے اور نہ ہی انہیں کسی تیسرے گریق کی جانب سے ڈکٹیٹ کیا جانا چاہئے۔چین کے صدر کا یہ پیغام اور یہ زاویہ تب بھی نظر آیا تھا جب سان فرانسسکو میں انہوں نے امریکی صدر سے کہا تھا کہ دنیا بہت بڑی ہے اور کسی ایک فریق کی جیت دوسرے فریق کی ہار نہیں ہو سکتی ۔
دوسری جانب یورپ کی تزویراتی خودمختاری کے ایک نمایاں حامی میکرون نے اس بات پر زور دیا کہ فرانس اور یورپی یونین کو چین کے ساتھ تعاون کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ یورپ کے مستقبل پر منحصر ہے.انہوں نے فرانس چین بات چیت اور تعاون کو بڑھانے اور فرانس اور چین کے درمیان اور یورپی یونین اور چین کے مابین باہمی اعتماد اور دوستی کو مضبوط بنانے کی امید ظاہر کی جو خوش آئند ہے ۔دیکھا جائے تو فرانس ایک طویل عرصے سے یورپ کی اسٹریٹجک خودمختاری کی وکالت کرتا رہا ہے۔فرانس کے صدر میکرون کئی مواقعوں پر کہہ چکے ہیں کہ اتحاد میں رہ کر بھی ہر ملک کو یہ اختیار حاصل ہو نا چاہئے کہ وہ اپنے مفادات اور اپنے عوام کی خوشحالی کے لئے جو مناسب ہو کرے اور اس عمل میں کسی محاذ آرائی اور بلاک سیاست کا عمل دخل نہیں ہو نا چاہئے۔ایک انداز سے دیکھا جائے تو یہ ایک طرح سے کثیر قطبی دنیا کے تصور کی ہی ایک ذیلی شکل بھی بنتی ہے۔ کئی ماہرین کی یہ رائےہے کہ تنازعات کے خاتمے، اقتصادی ترقی میں اضافے، آب و ہوا کی تبدیلی اور صحت کے اہم بحرانوں سے نمٹنے جیسے بڑے عالمی چیلنجوں کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے، ایک مؤثر حل کے لئے تمام ممالک کے مابین تعاون کی ضرورت ہے۔
بالترتیب سربیا اور ہنگری کے اپنے دوروں میں شی اور دو وسطی اور مشرقی یورپی (سی ای ای) ممالک کے رہنماؤں نے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے فیصلوں کا اعلان کیا۔یہ اعلان اچانک نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے بھی کئی سالوں کا اعتماد اور ہم آہنگی تھی ۔ صرف جنوری سے مارچ 2024 تک کی ہی بات کی جائے تو چین کی سی ای ای میں سرمایہ کاری میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 36.35 فیصد اضافہ ہوا اور یہ تقریبا 450 ملین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔ مارچ 2024 تک ، سی ای ای خطے میں چینی سرمایہ کاری کی مجموعی کل مالیت 5.2 بلین ڈالر تک پہنچی ۔
2023 میں ، ہنگری میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری مجموعی طور پر 13 بلین یورو (تقریبا 13.86 بلین ڈالر) رہی جس میں سے تقریبا 8 بلین یورو (تقریبا 8.53 بلین ڈالر) چین سے تھے۔
سربیا کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔گزشتہ دو سالوں کے دوران ، چین سربیا میں سب سے بڑے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کار کے طور پر ابھرا ہے ، جس سے ملک کو متعدد فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
اب سربیا کے پاس لائف سائنسز، ڈیجیٹل اکانومی، آٹوموٹو انڈسٹری، اسمارٹ زرعی شعبے اور سبز ترقی جیسے اعلی اضافی قدر والے صنعتی شعبوں میں چین سے سرمایہ کاری کو راغب کرنے پر منظم طریقے سے اپنی کوششوں پر توجہ مرکوز کرنے کے مزید مواقع موجود ہیں۔سربیا اور ہنگری کے ساتھ چین کے بڑھتے ہوئے تعاون نے مقامی اقتصادی ترقی کو فروغ دیا ہے اور معیار زندگی کو بلند کیا ہے۔یہ کامیابیاں یقینا اجتماعی کوششوں اور ہم آہنگی کی ایک بڑی مثال ہیں۔