یہ 1999 کے ماہ مئی کے پہلے ہفتے کی بات ہے جب ایک دن بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کارگل کے ایک مقامی شخص تاشی نامگیال بٹالک سیکٹر میں اپنے گمشدہ یاک کی تلاش میں سرگرداں تھے۔
ایک خطیر رقم سے خریدے جانے والے یاک کے گھر واپس نہ آنے پر وہ قریبی پہاڑیوں پر چڑھ کر دیکھ رہے تھے کہ ان کا یاک کہاں کھو گیا ہے۔
بہرحال اُن کی کوشش رنگ لائی اور انھیں اپنا یاک نظر آ گيا۔ لیکن اس کے ساتھ انھوں نے جو منظر دیکھا اسے ’کارگل جنگ‘ کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ کارگل کے محاذ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی لڑائی کو آج (3مئی) 25 برس مکمل ہو چکے ہیں جو دونوں ہمسایہ ممالک کی فوجوں کے درمیان آخری باقاعدہ جنگ سمجھی جاتی ہے۔
یہ لڑائی مئی سے جولائی 1999 کے درمیان لائن آف کنٹرول کے ساتھ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے کارگل کی برفانی چوٹیوں پر لڑی گئی۔ بھارت میں اسے ’آپریشن وجے‘ کا نام دیا گیا جبکہ پاکستان میں اسے ’آپریشن کوہ پیما‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
اس جنگ میں ہونے والی ہلاکتوں کے درست اعدادوشمار تو میسر نہیں ہیں تاہم جہاں بھارت میں 600 سے زیادہ فوجیوں کی ہلاکت کی بات کی جاتی ہے وہیں کئی پاکستانی فوجیوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ؕ۔پاکستان نے اس معرکے میں شہید ہونے والے دو فوجیوں کو اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’نشان حیدر‘ سے بھی نوازا تھا۔
کارگل کی لڑائی کے اختتام کے کئی برس بعد بھی اس جنگ میں ہونے والے نقصان اور دیگر بہت سی چیزوں کے بارے میں قیاس آرائیاں اب بھی کی جاتی ہیں۔
لیکن کارگل کے رہائشی تاشی نامگیال کا کھو جانے والا یاک اس جنگ کے آغاز کا ایک اہم کردار ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ کے مطابق 28 جولائی 2019 کو بی بی سی نامہ نگار اروند چھابڑا کی تحریر میں تاشی نامگیال نے بتایا تھا کہ ’اگر وہ میرا نیا یاک نہ ہوتا تو شاید میں اس کی تلاش بھی نہ کرتا، اور پھر شاید میں پاکستانی دراندازوں کو بھی نہ دیکھ سکتا۔‘
تاشی نامگيال ممکنہ طور پر وہ شخص ہیں جنھوں نے سب سے پہلے بھارت کی جانب کارگل کی پہاڑیوں پر موجود پاکستانی فوجیوں کو دیکھا تھا۔
اس وقت انھیں یہ معلوم تو نہیں تھا کہ یہ پاکستانی فوجی ہیں مگر مشتبہ محسوس ہونے پر انھوں نے فوراً ہی اس بارے میں انڈین فوج کو آگاہ کیا جو اُس وقت تک انڈین علاقے میں پاکستانی فوجیوں کی موجودگی کی حقیقت سے بے خبر تھی۔
بھارت میں آج تک کارگل کے علاقے میں فوجیوں کی موجودگی کو ’انٹیلیجنس ناکامی‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تاشی نامگیال نے مزید بتایا کہ ’میں ایک غریب چرواہا تھا، اس وقت میں نے اس یاک کو 12 ہزار روپے میں خریدا تھا اور جب پہاڑوں میں میرا یاک کھو گیا تو میں پریشان ہو گیا۔ عام طور پر یاک شام تک واپس آ جاتے ہیں۔ لیکن وہ نیا یاک تھا اسی لیے مجھے اس کی تلاش میں جانا پڑا۔ اس دن مجھے یاک تو مل گیا لیکن مجھے پاکستانی فوجیوں کو دیکھنے کا موقع بھی ملا۔‘
بدھ مت کے پیروکار تاشی کارگل سے 60 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ کے کنارے گارکون گاؤں میں رہتے تھے۔
وہ مجھے اس جگہ تک بھی لے کر گئے جہاں انھوں نے ’دراندازوں‘ کو پہلی بار دیکھا تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان نے دعویٰ کیا تھا کہ کارگل کی اونچائیوں پر لائن آف کنٹرول کے پار والے علاقے میں موجود پاکستانی فوجی نہیں بلکہ مسلح کشمیری علیحدگی پسند تھے۔ تاہم تاشی کی جانب سے اطلاع ملنے کے بعد بھارتی فوج نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کیا اور پاکستان کی فوج پر دراندازی کا الزام عائد کیا۔
سینیٹر مشاہد حسین سید اُس وقت نواز شریف کی حکومت میں وفاقی وزیرِ اطلاعات تھے جنھوں نے بی بی سی کی نامہ نگار شمائلہ جعفری کو 23 جولائی 2019 میں دیے جانے والے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انھیں پاکستانی فوج کی کارگل میں موجودگی کی اطلاع انٹرنیشنل میڈیا کو دی جانے والی ایک بریفنگ سے تھوڑی دیر پہلے دی گئی۔
’جب یہ معاملہ منظر عام پر آ گیا تو مجھے کہا گیا کہ آپ بریفنگ دیں کیونکہ میں حکومت کا ترجمان تھا۔ اس وقت مجھے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ یہ ہمارے بندے ہیں۔ ناردرن لائٹ انفنٹری۔ ہمارے ریگولرز۔‘
یہ تاشی نامگیال ہی تھے جنھوں نے پاکستانی فوج کی موجودگی کی نشان دہی کی۔ انھوں نے بڑے فخر کے ساتھ اروند چھابڑا کو اپنا وہ کھیت دکھایا جہاں وہ خوبانی اُگاتے ہیں۔
اروند چھابڑا لکھتے ہیں کہ چلتے چلتے جب ہم ایک جگہ پہنچے تو تاشی نے چیخ کر کہا ’وہ یہیں پر تھے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں سے میں نے انھیں دیکھا تھا۔‘
پہلے تو تاشی کو یہ گمان بھی نہیں ہوا کہ اونچائیوں پر موجود لوگ کون ہیں۔ وہ کہتے ییں کہ ’پہلے مجھے خیال آیا کہ شاید یہ لوگ شکاری ہیں۔ اس کے بعد میں نے دوڑ کر اس کے متعلق فوج کو بتایا۔‘
اس اطلاع کے بعد ہی کارگل کے محاذ پر بھارت اور پاکستان کے درمیان اس جنگ کا آغاز ہوا جو تقریبا دو ماہ تک جاری رہی اور اس کے دوران تقریباً 600 انڈین فوجی ہلاک ہوئے۔
تاشی اور اس گاؤں کے دوسرے افراد فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ بھارت کی اس فتح میں انھوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
اپنی تہذیبی شناخت والی مخصوص ٹوپی پہننے والے تاشی اس جنگ کے بعد حکومت کی جانب سے دیے گئے اعزازات کو دکھاتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر ایوارڈ اُن کی ہوشیاری اور بہادری کے لیے انھیں دیے گئے ہیں۔لیکن کارگل جنگ کے اتنے سال بعد اِن اعزازات سے ان کا دل بھر چکا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’میرے چار بچے ہیں، لیکن ایک بیٹی کی تعلیم میں مدد کرنے کے علاوہ مجھے کوئی مالی مدد نہیں ملی اور نہ ہی کسی سے عزت ملی۔ بہت سے وعدے کیے گئے لیکن ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کیا گیا۔‘
تاشی نے کہا کہ انھیں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے بڑی توقعات ہیں، لیکن کسی کو ان تک پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے۔
تاشی سمیت اس گاؤں کے دوسرے لوگ بھی ترقی کی کمی سے ناراض ہیں۔
اس گاؤں میں رہنے والی تاشی پنچوک کہتی ہیں کہ ’ہم نے اپنے کھانے کی فکر کیے بغیر اپنے فوجیوں کے کھانے پینے کا خیال رکھا، لیکن کسی نے ہمارے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔‘
اپنے گاؤں کی ضروریات کو بیان کرتے ہوئے پنچوک نے کہا ’ہمارے یہاں مواصلات کی سہولت بھی موجود نہیں ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم عزت اور خصوصی سلوک کے مستحق ہیں کیونکہ ہم نے بہت سی جانیں بچائیں اور انڈین فوج کی عزت بچائی۔‘
(بشکریہ بی بی سی )