ججز خط کیس: اگر کوئی مجھ سے پوچھے گا تو میں تو کہوں گا کہ مداخلت ہوئی لیکن ہمیں مستقبل کا دیکھنا ہے، چیف جسٹس

اسلام آباد:چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ میں سپریم کورٹ کی تاریخ کے لیے ذمے دار نہیں جب سے چیف جسٹس بنا ہوں تب سے ذمہ دار ہوں۔ سب سے پہلے فل کورٹ اجلاس بلایا جو کافی عرصہ سے نہیں بلایا گیا تھا۔ کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہم عدلیہ کی آزادی کی حفاظت کریں گے۔ اگر عدالت آزاد ہو تو مکران کا سول جج بھی اتنا بااختیار ہو جتنا چیف جسٹس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے گا تو میں تو کہوں گا کہ مداخلت ہوئی لیکن ہمیں مستقبل دیکھنا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے 6 رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے خلاف لکھے گئے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بینچ کا حصہ ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے 2 صفحات پر مشتمل نوٹ میں بینچ میں شامل ہونے سے معذرت کرلی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں اس طرف یا اس طرف نہ کھینچیں، یہ بھی عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہے۔ کمرہ عدالت میں کوئی کراس ٹاک نہ کرے، عدالتی وقار کا احترام کریں۔ جس نے عدالت میں گفتگو کرنی ہے وہ کمرہ عدالت چھوڑ کر چلا جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں کے 184 تین کے تحت کیس کیسے لگایا گیا، کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا تمام موجود ججز پر بینچ تشکیل دیا جائے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس میں بیٹھنے سے معذرت کی اور وجوہات بھی دیں۔

اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے تجاویز پڑھ کے سنائیں تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں کرنی، ماضی میں ہائیکورٹس کے کام میں مداخلت کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔ ہم اس عدالت کی آزادی یقنی بنائیں گے، اندر اور باہر سے حملہ نہیں ہونے چاہیئں، اگر کوئی تجاویز ہیں تو سامنے لائیں، اب معاملہ یہ کہ آگے کیسے بڑھا جائے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے ہائیکورٹ کی بھیجی تجاویز پڑھی ہیں۔

ہائیکورٹ کی تجاویز صرف تجاویز نہیں چارج شیٹ ہے، جسٹس اطہر من اللہ
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی میں نے تجاویز نہیں پڑھیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وہ صرف تجاویز نہیں چارج شیٹ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں بہت زیادہ تقسیم ہے، لوگ شاید عدلیہ کی آزادی نہیں چاہتے، سابق چیف بھی کمیشن کا سربراہ بنے ان پر ہم میں سے بھی لوگوں نے دباؤ ڈالا۔ پارلیمنٹ کا شکر گزار ہوں جس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنائے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کہہ رہے ہیں کہ مداخلت تسلسل کے ساتھ ہوتی ہے، کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز متفقہ ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی ہاں بظاہر متفقہ نظر آرہی ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔

مداخلت ایک کھلا راز ہے، اب اس کا حل ہونا چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کی گزارشات سے میں سمجھا ہوں کہ مداخلت ایک کھلا راز ہے، اور اب اس کا حل ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میرے خیال سے اندر سے بھی مداخلت ہوتی ہے، جب ہم مانیٹرنگ جج لگاتے ہیں یہ بھی مداخلت ہے، جب ایجنسیوں پر مشتمل جے آئی ٹی بناتے ہیں یہ بھی مداخلت ہے۔ میں نے پہلے دن واضح کیا تھا کہ کوئی مداخلت نہیں ہوگی اور میرے دور میں کوئی شکایت نہیں، یہ شکایتیں پہلے کے دور کی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں بتا سکتا ہوں کہ کس طرح سے اس عدالت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں چیف جسٹس کی باتوں سے اتفاق کرتا ہوں۔ لیکن اگر ایک جج کو ڈرایا جائے گا جس طرح سے ایک جج کی ذاتی معلومات سوشل میڈیا پر افشا کی گئیں، جس طرح سے گرین کارڈ کا ایشو اٹھایا گیا۔

سپریم کورٹ کا ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز پبلک کرنے کا حکم
چیف جسٹس نے ہائیکورٹ کی بھجوائی گئی تجاویز پبلک کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں، کیا جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کے مطابق ہائیکورٹ خود اقدامات نہیں کرسکتی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہائیکورٹ بالکل اس پر خود اقدامات کر سکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جسٹس اعجاز اسحاق نے تجاویز کے ساتھ اضافی نوٹ بھی بھیجا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ جسٹس اعجاز کا اضافی نوٹ بھی پڑھیں، ہمیں ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز کو سراہنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کون سے نکات ہیں جن پر ہائیکورٹ خود کارروائی نہیں کرسکتی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سب نکات پر ہائیکورٹ خود کارروائی کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائیکورٹس کو ہدایات دے سکتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی رسپانس نہیں ہوگا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے، ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہیے جو ہائیکورٹ ججز اٹھا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ہائیکورٹس کی تجاویز تک ہی محدود رہنا چاہیے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل ججز کو سراہنے کے لیے اسے آن ریکارڈ پڑھ دیں، ججز جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مداخلت مسلسل جاری ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سارا معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس کیس میں ہمارے پاس یہ موقع ہے کہ معاملے کو حل کریں، ہمیں مداخلت کے سامنے ایک فائر وال کھڑا کرنی ہوگی، ہمیں بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کرنا ہوگا، ہمیں طے کرنا ہوگا کہ اگر کوئی مداخلت کرتا ہے تو اس کے خلاف کیسے ایکشن لینا چاہئے۔

اگر عدالت آزاد ہو تو مکران کا سول جج بھی اتنا بااختیار ہو جتنا چیف جسٹس ہے
قاضی فاٸز عیسی نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے اس کا بااخیتار ہونا بھی ضروری ہے، کیا چیف جسٹس کسی جج کو کہہ سکتا ہے کہ کیس اس طریقے سے چلائیں۔ اگر عدالت آزاد ہو تو مکران کا سول جج بھی اتنا بااختیار ہو جتنا چیف جسٹس ہے۔ عدلیہ میں بھی خود احتسابی کے نظام پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ پہلے دن سے واضح کرچکا ہوں کہ بطور جج کسی قسم کی مداخلت اور دباؤ برداشت نہیں کروں گا۔

اس ملک میں سچ بولنا بہت مشکل ہے، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس ملک میں سچ بولنا بہت مشکل ہے۔ 2018 میں ججز کے خاندانوں کا ذاتی ڈیٹا لیک کیا گیا۔ ایک جج کو بتایا گیا کہ تمہارے بچے کہاں پڑھتے ہیں؟ 2018 میں ہمارے اوپر تنقید ہوتی رہی لیکن ہم نے کبھی اس پر کچھ نہیں کہا۔ ججز کا ڈیٹا جو حکومتی اداروں نادرا اور امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے وہ لیک ہو تو یہ درست نہیں، جج کو یہ کہنا کہ تمہارا بچہ کہاں پڑھتا ہے یہ صرف ایگزیکٹو کرسکتی ہے۔

ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا؟ جسٹس جمال مندوخیل
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہائیکورٹ کے ججز کو چھوڑیں ہمارے ساتھ جو ہو رہا ہے اس کا کیا؟ بینچ کے 2 ممبران کو ٹارگٹ کیا گیا، ہم نے نوٹس لیا ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے، فیصلہ ایک نہیں 10 دے دیں کیا ہو گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اج اس ایشو کو حل نہ کیا تو بہت نقصان ہوگا، ڈسٹرکٹ جوڈیشری نے جو خط لکھا ہے بڑی جرات دکھائی ہے۔ میں بھی لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں ہماری جرات نہیں تھی۔ یہ اس مقدمے اور اس سوموٹو کیس کے ثمرات ہیں۔ ازراہ تفنن عرض کروں گا کہ بلوچستان کی عدلیہ نے جواب نہیں بھیجا۔

مجھے پتا ہے کہ کتنی مداخلت ہوتی ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ میں 5 سال ایک ماہ بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں، مجھے پتا ہے کہ کتنی مداخلت ہوتی ہے اور زیادہ تر سپریم کورٹ سے مداخلت ہوتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں کبھی میرے یا کسی اور جج کے کام میں مداخلت نہیں کی گئی۔ میرے لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے دوران کبھی مداخلت نہیں ہوئی۔

جو مداخلت کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا اسے جج کی کرسی پر بیٹھنے کا حق نہیں، جسٹس مسرت ہلالی
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ جو مداخلت کے خلاف کھڑا نہیں ہوتا اسے جج کی کرسی پر بیٹھنے کا حق نہیں، یہ جو تجاویز دی گئی ہیں یہ سب خود کیوں نہیں کرتے سپریم کورٹ سے اجازت کیوں لے رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا مسائل اندرونی ہوں یا بیرونی آج موقع ہے کہ حل کریں، ہائیکورٹس کے پاس تمام اختیارات تھے، توہین عدالت کا بھی اختیار تھا، ایک نظام بنانا ہے اور ملک کی ہر عدالت کو مضبوط کرنا ہے۔

کیا ایک جمہوری ملک میں ایسا کلچر ہونا چاہیے، جسٹس منصور علی شاہ
اٹارنی جنرل پشاور عدلیہ کی تجاویز پڑھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی مثبت تجاویز دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے فون رکھ کر بات کرو یہ کس قسم کا کلچر ہے؟ مجھے کوئی دیکھ رہا ہے مجھے کوئی نوٹ کر رہا ہے اس کمرے میں ڈیوائس لگی ہے یہ کیوں ہوتا ہے، کیا ایسا ہونا چاہیے؟ کیا ایک جمہوری ملک میں ایسا کلچر ہونا چاہیے۔

پشاور والے جج صاحبان کہہ رہے ہیں اگر دھرنا فیصلے پر عملدرآمد ہوگیا ہوتا؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور والے جج صاحبان کہہ رہے ہیں اگر دھرنا فیصلے پر عملدرآمد ہوگیا ہوتا؟ چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ بتانا پسند کریں گے کہ اس فیصلے کے خلاف کس کس نے نظر ثانی درخواستیں دائر کیں۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ اندرونی مداخلت کیسے ہوتی ہے۔ 4 سال سے زائد نظر ثانی سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں ہوئی، کوئی وضاحت ہے کہ کیوں قریباً 5 سال سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوئی، کیا اس کے لیے بھی ایگزیکٹو ذمے دار ہے۔ یہاں پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ سب سے پہلا کام قانون سازی ہے، پارلیمنٹ کیوں نہیں کر رہی؟

دھرنا ایک لینڈ مارک ججمنٹ تھی، حکومت نے بے اثر کر دیا: جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ دھرنا ایک لینڈ مارک ججمنٹ تھی، حکومت نے حقیقت میں اس ججمنٹ کو بے اثر کردیا۔ افواج پاکستان کے امیج کو بھی دیکھنا ہے، وہ ہماری افواج ہیں، جو اس ملک کا دفاع کر رہی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کونسا کیس کل دائر ہو اور آج لگ جائے، کونسا کیس 15 سال نہیں لگنا کونسا کیس کس بینچ کے سامنے لگنا ہے، یہ بھی complicity ہے۔ عدلیہ کی تاریخ میں پہلی بار ہمیں عدالتی آرڈر کے ذریعے بینچ سے علیحدہ کیا گیا۔

دھرنا کیس میں لکھ کردیا کہ فیض حمید اس کے پیچھے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ دھرنا کیس میں پہلی بار میں نے لکھ کر دیا کہ فیض حمید اس کے پیچھے ہیں، لیکن اس پر حکومت نے کیا کیا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انٹیلی جنس ادارے وزیراعظم کے ماتحت ہوتے ہیں، انٹیلی جنس ادارے کچھ کرتے ہیں تو اس کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کی کابینہ ہے۔ آٸین دیکھ لیں کچھ بھی آزادانہ نہیں ہوتا، ہمیں اپنی آرمڈ فورسز کا امیج بھی برقرار رکھنا ہے، یہ ہماری ہی مسلح افواج ہے جو ملک کے محافظ ہیں، یہ ہمارے سولجرز ہیں جو ملک کا دفاع کرتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسی ادارے کس قانون کے تحت وجود میں آئے ہیں اور اگر مداخلت کرتے ہیں تو ان کے خلاف کیا ایکشن لیا جا سکتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آپ نے پچھلی سماعت پر کہا تھا کہ 2017/18 میں سیاسی انجینئرنگ ہو رہی تھی اس وقت حکومت میں کون تھا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ حکومت بے بس تھی؟

جو سچ بولتے ہیں ان کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو 6 ججز کے ساتھ ہو رہا ہے، جسٹس اطہر من اللہ
چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ تو انتہا پر چلے جاتے ہیں کہ فلاں کو سزا دو فلاں کو سزا دو ،کم از کم اقرار ہی کر لو، ہم نے تو اقرار کر لیا اب حکومت کی ذمے داری ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سچ سب کو پتا ہوتا ہے لیکن بولتا کوئی نہیں جو بولتے ہیں ان کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو 6 ججز کے ساتھ ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بیوروکریسی کو بھی فون آتے ہیں کچھ کام کر دیتے ہیں کچھ نہیں کرتے، جو نہیں کرتے او ایس ڈی بنا دیے جاتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر عدلیہ اپنے دروازے نہ کھولے تو دباؤ کبھی بھی نہیں ہوگا، جو دروازے کھولتے ہیں ان کے خلاف مس کنڈکٹ کا کیس ہونا چاہیے۔

سب جج چیف جسٹس کی طرح جرات مند نہیں، کچھ میرے جیسے بھی ہوتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سب جج چیف جسٹس کی طرح جرات مند نہیں، کچھ میرے جیسے بھی ہوتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب کوئی جج سچ بولتا ہے اس کے خلاف بدنام کرنے کی مہم چلائی جاتی ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا اتنا بڑا فیصلہ آیا حکومت نے کیا کیا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس میں کئی سابق ججز بھی ملوث ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو بھی ملوث ہو، اگر سابق چیف جسٹس بھی ملوث ہیں ان کے خلاف بھی ایکشن لیں۔ ماضی میں مداخلت پر عدلیہ نے نوٹس نہیں لیا۔

جب کوئی جج سچ بولتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر ہو جاتے ہیں، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جب کوئی جج سچ بولتا ہے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر ہو جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ریفرنس ہمارے پاس ہی آتے ہیں، ہمارے پاس میکانزم ہے، ہمیں اپنی اتنی بری تصویر پیش نہیں کرنی چاہیے۔ میں عدلیہ کی آزادی چاہتا ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سپریم کورٹ ہائیکورٹس کے کام میں مداخلت کرے۔

ریاستی ادارے جارح ہو جائیں تو عوام ان کے ساتھ لڑائی نہیں کرسکتے، جسٹس اطہر من اللہ
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے تسلیم کیا، 2017/18 میں آپ کی حکومت تھی اور ریاستی ادارے اسی حکومت کے خلاف سیاسی انجینئرنگ میں ملوث تھے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر اگر 2 سال پہلے آتا تو سپریم کورٹ اسے کالعدم کر دیتی تو پارلیمنٹ کیا کرلیتی۔ اگر ریاستی ادارے جارح ہو جائیں تو عوام ان کے ساتھ لڑائی نہیں کرسکتے۔ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے 3 ہائیکورٹس کا پڑھا کسی نے نہیں کہا کہ مداخلت نہیں ہے۔ جب سپریم کورٹ سے بالواسطہ پیغامات آتے ہیں تو ہائیکورٹس کے لیے زیادہ مشکل ہوجاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں ایک آئین کا طرفدار (constitutionalist) ہوں۔

ایگزیکٹو کی ذمے داری ہے کہ ریاستی اداروں کو کنٹرول کریں، سپریم کورٹ
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ہم انگلیاں اٹھاتے ہیں ہم نے کسی کی قدر نہیں کی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ ہمارے لیے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ اور ایگزیکٹو کی ذمے داری ہے کہ ریاستی اداروں کو کنٹرول کریں اور یہی سوال ہمارے سامنے ہے۔

’ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام‘ یہی بابر ستار کے ساتھ ہو رہا ہے
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب سچ بتائیں کیا لوگوں کا اعتماد ہے کہ عدلیہ ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ بینچ نے بلوچستان ہائیکورٹ کے ججز کے جواب کی خوبصورت انگریزی کی تعریف کی۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے جواب میں اکبر الہ آبادی کے شعر کا حوالہ بھی ہے ’ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام۔‘ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہی بابر ستار کے ساتھ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر پتا نہیں کیا کیا لکھا جا رہا ہے لوگ فریق بنے ہوئے ہیں، لوگ پارٹی کیوں بن جاتے ہیں۔

آئی بی ،آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں؟ جسٹس نعیم اختر افغان
جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ملک میں 3 ایجنسیاں ہیں۔ آئی بی ،آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت بنی ہیں، ہمیں آئندہ سماعت پر ان ایجنسیوں کے قانون بتائیں، یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں؟ ایک موقع پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو سپریم جوڈیشل کونسل کے ذکر سے روک دیا، کہا سپریم جوڈیشل کونسل الگ فورم ہے اسے تجاویز دینی ہیں تو الگ دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم یہاں انتظامی نہیں جوڈیشل سائیڈ پر بیٹھے ہیں کوئی بھی آرڈر پاس کرسکتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم کونسل کے فیصلوں کو ختم بھی کرتے ہیں ان میں ترمیم بھی کرتے ہیں، ہم اہم معاملے پر ایگزیکٹو کو ایڈوائس دے سکتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ہی سب کریں گے۔

کچھ لوگ ذاتی مفادات کے لیے آئینی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہیں، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ لوگ خاموشی سے عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے اب ختم ہو چکے ہیں۔ ججز کی تعیناتی کے لیے جب ہم خفیہ اداروں سے رپورٹیں منگواتے ہیں ہم ان کو مداخلت کا موقع دیتے ہیں۔ جب آپ مانیٹرنگ جج لگوائیں گے، جب جے آئی ٹیز میں ان کو شامل کریں گے تو ان کو مداخلت کا موقع ملے گا۔ کچھ لوگ ذاتی مفادات کے لئے آئینی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہیں۔ کچھ لوگ ایک خاص وقت میں ایک مقام پر کھڑے تھے، آج ایک دوسرے مقام پر کھڑے ہیں۔

ایجنسیوں کو بیانات حلفی دینے دیں کہ ان کی طرف سے مداخلت نہیں ہوتی، جسٹس منصور علی شاہ
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایجنسیوں کو بیانات حلفی دینے دیں کہ ان کی طرف سے مداخلت نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے گا تو میں تو کہوں گا کہ مداخلت ہوئی لیکن ہمیں مستقبل کا دیکھنا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب میرے 2 سوال ہیں؟ لاسٹ ٹائم آپ کی وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کی، جس میں کہا کہ 6 ججز نے مِس کنڈکٹ کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریس کانفرنس میں اگر 6 ججز کے خط کو مِس کنڈکٹ کہا گیا تو غلط تھا۔

پشاور ہائیکورٹ کے ججز کہتے ہیں کہ ہمیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں آتی ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کا جواب سب سے سنجیدہ ہے، وہ تو کہتے ہیں کہ ہمیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں آتی ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر حکومت سمیت متعلقہ اداروں سے جواب لینا چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایجنسیوں کو بیانات حلفی دینے چاہئیں کہ ان کی طرف سے مداخلت نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت سے جواب لے لیتے ہیں۔ کیس میں مختصر وقفہ کرتے ہیں پھر واپس آتے ہیں۔

کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز خط پر تحریری جوابات دے دیتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ جن لوگوں نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں خود اس پر فیصلہ کرلیں، سب فریقین کو سننا مشکل ہوجائے گا، تمام فریقین تحریری معروضات دے دیں، کیس کی سماعت 7 مئی تک ملتوی کر دیتے ہیں۔

آج کی سماعت کا تحریری حکمنامہ
چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا تحریری حکمنامے میں کہا ہے کہ 5 ہائیکورٹس نے اپنی تجاویز جمع کروائیں۔ اٹارنی جنرل نے دوران سماعت تجاویز پڑھ کر سنائیں۔ پاکستان بار کونسل نے اپنی تجاویز بھی جعع کروائیں۔ مناسب ہوگا بار ایسویسی ایشنز اور بار کونسلز متفقہ طور پر کوئی جواب جمع کرائیں۔ جن نکات پر اتفاق نہ ہو ان کو الگ دائر کیا جا سکتا ہے۔

Comments (0)
Add Comment