غذائی تحفظ  ۔ایک عالمی مسئلہ

 

 

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا  780  ملین سے زیادہ لوگوں کو بھوک کا سامنا ہے اور دنیا بھر میں پیدا ہونے والی تمام خوراک کا تقریباً ایک تہائی برباد یا ضائع ہو جاتا ہے اور تقریباً تین بلین لوگ صحت مند غذا کے حصول کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس حوالے سے ترقی پذیر ممالک کو اضافی مسائل کا سامنا ہے کیونکہ محدود وسائل اور قرضوں کا بوجھ انہیں ایسے نظام ہائے خوراک پر ضروری سرمایہ کاری سے روکتے ہیں جن سے پورے سماجی پیمانے پر غذائیت سے بھرپور خوراک حاصل کی جا سکتی ہے۔

موسمیاتی بحران کے پیچھے خوراک کی غیرمستحکم انداز میں پیداوار، پیکیجنگ اور صَرف کا بھی کردار ہے اور یہ شعبے دنیا بھر میں ایک تہائی گرین ہاؤس گیسوں (جی ایچ جی) کے اخراج، دنیا میں تازہ پانی کے 70 فیصد استعمال اور حیاتیاتی تنوع کے نقصان کے ذمہ دار ہیں۔

چین دنیا کی ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی کا حامل ملک ہے اور یہاں عوام کی غذائی ضروریات کو پورا کرنا ایک انتہائی مشکل معاملہ ہے لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں چین نے اپنے ذرعی نظام میں نمایاں تبدیلیاں کرتے ہوئے  ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔چین کا سالانہ غذائی پیداواری  ہدف  جب کامیابی حاصل کرتا ہے تو اس سے دنیا کی ایک بڑی آبادی کی غذائی ضروریات کے پورا ہونے کی ضمانے ملتی ہے لیکن اس کامیابی کے باوجود نئے دور اور نئی تبدیلیوں کے ساتھ نئے تقاضوں سے نمٹنے کے لئے چین نے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر اپنی  ایک اور  تازہ ترین کوشش میں آنے والے سالوں میں اپنی اناج کی پیداوار میں نمایاں اضافے کے لئے کچھ نئے اقدامات کا آغاز کیا ہے ۔

اسٹیٹ کونسل کی جانب سے شائع کردہ ایک ایکشن پلان کے مطابق ملک کا مقصد 2030 تک اناج کی پیداواری صلاحیت کو 50 ملین ٹن سے زیادہ بڑھانا ہے۔ اس وقت ، اناج اگانے کا رقبہ تقریبا 1.75 بلین ایم یو ، یا 117 ملین ہیکٹر  ہے ، اور فی ایم یو اناج کی پیداوار 420 کلوگرام تک پہنچ جائے گی۔

چین میں مسلسل نو سالوں سے 650 ملین ٹن سے زیادہ اناج کی فصل دیکھی گئی ہے ، جس میں اناج کا فی کس حصہ 493 کلوگرام ہے۔نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن (این ڈی آر سی) کے  مطابق اناج کی رسد اور طلب میں اب بھی ‘سخت توازن’ پایا جاتا ہے اور مستقبل میں یہ فرق بڑھ سکتا ہے، لہٰذا غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پیداوار میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔

حالیہ منصوبے میں کہا گیا ہے کہ  مکئی اور سویابین اناج کی پیداوار کے اضافے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ چاول اور گندم کے لحاظ سے معیار کو بہتر بنانے اور ساخت کو بہتر بنانے پر زور دیا گیا ہے اور آلو اور دیگر اقسام کے اناج اور پھلیوں کو مقامی حالات کی بنیاد پر فروغ دیا جائے گا۔این ڈی آر سی اور وزارت زراعت و دیہی امور کی رہنمائی میں 720 اہم اناج پیدا کرنے والی کاؤنٹیوں میں پانی کے تحفظ سے لے کر اعلی معیار کی زرعی زمین کی تعمیر اور بیج کی صنعت کی بحالی تک کے بڑے منصوبوں پر بھی  عمل درآمد کیا جائے گا۔

غذائی تحفظ کے لئے ملکی سطح پر چین کے اقدامات جہاں دنیا کی ایک بڑی آبادی کی ضروریات کی ضمانت ہیں وہیں مختلف عالمی منصوبوں میں چین کا اپنے تجربے کا اشتراک بھی ایک قابل قدر اقدام ہے۔بیلٹ اینڈ روڈ سے وابستہ ممالک میں مختلف ذرعی ٹیکنالوجیز کا استعمال اور  فہم اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ دنیا میں بسنے والے اربوں انسان کسی کونے میں بھی  اس جدید دور میں بھوک کا شکار یا بھوک کے خوف کا شکار بھی نہ ہوں ۔لیکن ایسے اقدامات متواتر ہوں اور تمام اقوام کی انفرادی اور مشترکہ کوششیں اس میں شامل ہوں تو نتائج زیادہ اور دیر پا ہوں گے۔

Comments (0)
Add Comment