پاکستان نے قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد سے آج تک ذوالفقار علی بھٹو سے بڑا، بہتر اور باکمال لیڈر، سیاستدان یا حکمران نہیں دیکھا۔
ایک سحر انگیز شخصیت، ذاتی قابلیت، عوامی مقبولیت اور قومی خدمت میں جس کا کبھی کوئی ثانی نہیں تھا، بھٹو نے اپنی صرف 51 سالہ زندگی میں وہ مقام و مرتبہ حاصل کیا جو تاریخ میں بہت کم لوگوں کے حصہ میں آتا ہے۔
ابتدائی زندگی
5 جنوری 1928 کو خطہ سندھ کے معروف سیاستدان سر شاہنواز بھٹو کے گھر پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کی ابتدائی تعلیم بمبئی میں ہوئی، بارکلے اور آکسفورڈ یونیورسٹیز سے پولیٹیکل سائنس کی اعلیٰ تعلیم کے بعد لنکن ان سے وکالت پاس کی، 1953 میں کراچی واپس آئے اور قانون کے لیکچرار رہے اور ساتھ ہی وکالت بھی جاری رکھی۔
سیاسی زندگی
25 نومبر 1954 کو ذوالفقار علی بھٹو سندھ یوتھ فرنٹ کے صدر کے طور پر پہلی بار خبروں میں آئے جب انہوں نے ون یونٹ کے قیام کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
ستمبر 1957 میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو کی سرکاری خدمات سامنے آئیں جب وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں شریک پاکستانی وفد میں شامل تھے جہاں ان کی تقاریر سے سرکاری حلقے اس قدر متاثر ہوئے کہ چھ ماہ بعد مارچ 1958 میں جب پاکستان کا ایک اور وفد اقوام متحدہ کے جنیوا میں ہونے والے ایک اجلاس میں شرکت کے لئے گیا تو اس وفد کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کر رہے تھے۔
منفرد اعزازات
ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی تاریخ کی واحد شخصیت ہیں کہ جو اعلیٰ ترین سرکاری اور انتظامی عہدوں پر فائز رہے جن میں صدر، وزیر اعظم، وزیر خارجہ، سپیکر، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پاک فوج کے سپریم کمانڈر کے اعلیٰ عہدے شامل ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی سیاست پر بھی راج کیا اور ان سے بڑا سیاستدان بھی کوئی نہیں تھا، وہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور چیئرمین، پاکستان کے پہلے منتخب حکمران اور پاکستان کی تاریخ کے واحد عوامی لیڈر بھی تھے۔
زندہ بھٹو، مردہ بھٹو
پاکستانی عوام پر ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کا کمال جادو تھا کہ زندہ بھٹو نے 2 بار اور مردہ بھٹو نے 3 بار انتخابات جیتے، بھٹوکی بیٹی محترمہ بے نظیربھٹو اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں، بھٹو کا داماد آصف علی زرداری صدر بنا اور نصف صدی بعد آج بھی بھٹو کے نام پر ہی سیاست ہور ہی ہے اور بھٹو کے نام پر ہی ووٹ بھی مل رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو زرداری بھی وہی نسخہ کیمیا آزمانے کی کوشش کر رہا ہے، تاریخ عالم میں ایسی لا زوال شہرت و مقبولیت کی حامل طلسماتی شخصیت کی شاید ہی کوئی اور مثال ملے، آج 2024 میں بھی بھٹو کا داماد آصف علی زرداری پھر بھٹو کے ہی ووٹ پر دوبارہ صدر بنا ہے۔
4 اپریل 1979 کو ایک عالمی سازش، ریاستی جبر اور ایک انتہائی متنازع عدالتی فیصلے کے بعد پھانسی پا کر امر ہو جانے والی اس عظیم المرتبت ہستی کے انتہائی قابل رشک سیاسی کیریئر اورعروج و زوال کاخلاصہ ملاحظہ فرمائیں!
بھٹو اور ایوب خان
اسی سال یعنی 7 اکتوبر 1958 کو اس وقت کے صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے آئین کو معطل کیا، وزیراعظم ملک فیروز خان نون کو گھر بھیجا، اسمبلیاں اور سیاسی پارٹیاں توڑیں اور ملک گیر مارشل لاء لگا کر آرمی چیف جنرل ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقررکر دیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 24 اکتوبر 1958 کو جنرل ایوب خان کو وزیر اعظم بھی بنا دیا گیا تھا جنہوں نے صرف تین دن بعد یعنی 27 اکتوبر1958 کو سکندر مرزاکا بوریا بستر گول کیا، انہیں ملک بد ر کیا اور خود عہدہ صدارت بھی ہتھیا لیا، صدر ایوب خان نے جس 11 رکنی کابینہ کا اعلان کیا تھا اس میں تین فوجی جرنیلوں کے علاوہ آٹھ غیر سیاسی سویلین بھی تھے ان میں 30 سالہ نوجوان وکیل ذوالفقار علی بھٹو کو وزیر تجارت کا عہدہ دیا گیا تھا جو اس وقت تک پاکستان کے کم عمر ترین وزیر تھے۔
بے مثل کارکردگی
صرف سوا سال کے عرصے میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کارکردگی سے اس قدر متاثر کیا کہ 7 جنوری 1960 کو صدر جنرل ایوب خان نے اپنی 11 رکنی کابینہ میں وزارتوں کی تقسیم نو کی تو ذوالفقار علی بھٹو واحد وزیر تھے جنہیں سب سے زیادہ یعنی 6 وزارتوں کے قلمدان سونپ دیئے گئے تھے۔
ان وزارتوں کے نام، وزیر اطلاعات و نشریات، وزیر قومی تعمیر نو، وزیر دیہی ترقی، وزیر بلدیات، وزیر سیاحت اور وزیر اقلیتی امور جبکہ تین ماہ بعد وزیر ایندھن، پانی، بجلی اور قدرتی وسائل کی وزارت پر بھی فائز رہے اور 24 جنوری 1963 کو اپنے وزیر خارجہ بننے تک ان وزارتوں کے نام بھی آتے ہیں وزیر صنعت، وزیر امور کشمیر، قائمقام وزیر خوارک و زراعت اور قائمقام وزیر خارجہ (وغیرہ)
جنرل ایوب کا دایاں ہاتھ
1962 میں صدر جنرل ایوب خان نے اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے جمہوری حکومت بننے کا ڈرامہ رچایا تو پہلی بار پاکستان کی خالق جماعت پاکستان مسلم لیگ کو ہائی جیک کیا گیا، کنونشن مسلم لیگ کے نام کی اس سرکاری پارٹی کے سربراہ صدر مملکت جنرل محمد ایوب خان اور جنرل سیکرٹری ذوالفقار علی بھٹو تھے جو اپنی غیرمعمولی کارکردگی کی وجہ سے صدر ایوب خان کی حکومت کی سب سے بڑی دریافت بن چکے تھے۔
جنرل ایوب خان کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کا ساتھ تقریباً 8 سال تک رہا جس میں وہ ان کے دست راست اور سب سے قابل اعتماد وزیر تھے، پاکستان کے چاروں آمروں میں سے اگر صرف جنرل ایوب خان کی کچھ مثبت کارکردگی تھی یا انہیں کچھ احترام سے یاد کیا جاتا ہے تو اس کی واحد وجہ بھٹو جیسا گوہر نایاب تھا جو دیگر آمروں کو نصیب نہ ہو سکا۔
21 جون 1964 کو صدر جنرل ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو اعلیٰ کارکردگی پر پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ ہلال پاکستان بھی دیا لیکن 17 جون 1966 کو دونوں کی راہیں جدا ہوئیں تو جنرل ایوب کا ستارہ بھی گردش میں آ گیا جبکہ بھٹو نئی بلندیوں کی طرف گامزن ہو گئے۔
عملی سیاست
30 نومبر 1967 کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی نئی سیاسی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کا اعلان کیا اور عملی سیاست میں قدم رکھ دیا، خود پارٹی کے بانی اور چیئرمین بنے اور صرف تین سال بعد 7 دسمبر 1970ء کے انتخابات میں موجودہ (یا مغربی) پاکستان میں شاندار کامیابی حاصل کی۔
بھٹو کو کل 138 میں سے81 نشستیں حاصل ہوئیں اور خود پانچ حلقوں سے منتخب ہوئے، مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ نے کل 300 میں سے 160 سیٹیں جیتی تھیں اور حکومت بنانے کی حقدار بھی تھی لیکن پاکستان کا مختار کل آمر جنرل یحییٰ خان اقتدار سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا، وہ صرف شرکت اقتدار چاہتا تھا انتقال اقتدار نہیں، حتیٰ کہ ملک تک ٹوٹ گیا لیکن وہ پھر بھی اقتدار سے ہٹنے کو تیار نہیں تھا۔
یحییٰ خان کے دور میں بھی وزارت خارجہ سنبھالی
7 دسمبر1971 کو جنگ دسمبر کے نازک موقع پر صدر جنرل یحییٰ خان نے ایک قومی حکومت قائم کی جس میں مشرقی پاکستان سے واحد سیٹ جیتنے والے نورالامین کو وزیر اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کا پہلا نائب وزیر اعظم اور دوسری بار وزیر خارجہ بنایا گیا، اصل میں بھٹو کو سلامتی کونسل بھیجنے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا گیا کیونکہ اس وقت پورے ملک میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو اس عالمی تنہائی میں پاکستان کا کمزور موقف پیش کر سکتا تھا۔
واحد سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر
16 دسمبر 1971 کو پاکستان کو ایک شرمناک ترین فوجی شکست ہوئی اور مشرقی پاکستان پر بھارت کے قبضہ کے نتیجہ میں بنگلہ دیش بن گیا، یہ عظیم سانحہ نہ ہوتا تو جنرل یحییٰ خان اور اس کا ٹولہ کبھی بھی اقتدار سے دستبردار نہ ہوتا۔
20 دسمبر 1971 کے دن جنرل یحییٰ نے مجبوراً اپنے صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات ذوالفقار علی بھٹو کے سپر د کر دیئے جو آئین کی عدم موجودگی کی وجہ سے تھے، اس طرح بھٹو صاحب (غالباً) عالمی تاریخ کے واحد سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے، اس کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کے پاس وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کی وزارتوں کے قلمدان بھی تھے۔
14 اپریل 1972ء کو پاکستان کی پہلی منتخب قومی اسمبلی نے حلف اٹھایا تو ذوالفقار علی بھٹو کو 38 کے مقابلے میں 104 ووٹوں کی اکثریت سے اسمبلی کے صدر یا سپیکر منتخب ہونے اعزاز بھی حاصل ہوا۔
پانچ ماہ میں عبوری آئین
صرف پانچ ماہ کی مدت میں 20 اپریل 1972 کے دن عبوری آئین کا نفاذ ہوا جس کے نتیجہ میں مارشل لاء ختم ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو نے 21 اپریل 1972 کے دن دوسری مرتبہ صدر پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی حکمران نے اپنے عہدے کا حلف قومی زبان اردو میں اٹھایا اور یہ واقعہ بھی پہلی بار ہوا کہ کسی سرکاری عمارت کی بجائے ریس کورس راولپنڈی کے ایک عوامی اجتماع میں حلف اٹھایا گیا۔
پاکستان کا مستقل آئین
14 اگست 1973 کو پاکستان کا پہلا متفقہ آئین نافذ ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا، انہیں قومی اسمبلی میں 28 کے مقابلے میں 108 ووٹ ملے، بھٹو نہ صرف پاکستان کے مستقل آئین کے خالق تھے بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی بھی تھے۔
انہوں نے جہاں شملہ معاہدہ میں میدان جنگ میں ہاری ہوئی جنگ جیتی تھی وہاں ہزاروں مربع میل مقبوضہ علاقہ واپس لینے کے علاوہ کسی پاکستانی فوجی افسر پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ بھی نہیں چلنے دیا تھا، ان کے دور میں جہاں پاکستان کی دفاعی طاقت کو مضبوط تر کیا گیا وہاں پاکستان کی اکانومی روایتی حریف بھارت کے مقابلے میں بہتر ہوئی۔
بھٹو نے ہر شعبے میں ایسی اصلاحات کی تھیں کہ جو ان کی دشمن بن گئی تھیں اور انہیں اقتدار کے ساتھ جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گئے۔
دوسری بار وزیراعظم بنے
7 مارچ 1977 کو بھٹو نے دوسری بار انتخابات میں کل 181 نشستوں میں سے 155 پر کامیابی حاصل کی، 28 مارچ 1977 کے دن ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم بنے کہ جس نے دوسری بار اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا، یہ پہلا موقع تھا جب انہوں نے وزیر خارجہ کے عہدے پر اپنے نائب عزیز احمد کو نامزد کیا تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے طویل عرصہ تک وزیر خارجہ رہنے کا ریکارڈ ابھی تک ذوالفقار علی بھٹو ہی کے پاس ہے جو کل پونے 9 سال تک وزیر خارجہ رہے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ہی پاکستان کی تاریخ کی واحد شخصیت ہیں کہ جنہوں نے پاکستان کے تین اعلیٰ ترین عہدوں صدر، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے عہدوں کے حلف دو دو بار اٹھائے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو ان کی زندگی میں کبھی کوئی سیاستدان سیاسی شکست نہیں دے سکا تھا، جہاں بھٹو اقتدار کی معراج تک پہنچے وہاں ان کے تمام سیاسی مخالفین دنیا سے ناکام و نامراد ہو کر تاریخ کی کتابوں میں گم ہو چکے ہیں۔
عبرتناک مثال بنانے کا عمل
9 اگست 1976 کو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی بھٹو کو دی گئی دھمکی، پاکستان کے سازشی عناصر، غداروں اور آستین کے سانپوں کے لئے گرین سگنل تھی جس پر فوری عمل درآمد شروع ہو گیا جب 1977 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں، بدنام زمانہ تحریک نظام مصطفی اور ایک منتخب حکومت کے خلاف عالمی سازش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے جنرل ضیاء نے طاقت سے 5 جولائی 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
واضح رہے کہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو 37 اسلامی ممالک کے سربراہوں کی تنظیم کے سربراہ اور77 ترقی پذیر ممالک یا تیسری دنیا کی تنظیم کے چیئرمین بھی تھے۔
مقدمہ قتل
ذوالفقار علی بھٹو کو 3 ستمبر 1977 کو پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا لیکن دس روز بعد ضمانت ہو گئی، 17 ستمبر 1977 کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور ان پر احمد رضا قصوری نامی شخص کے باپ کے قتل کے الزام میں مقدمہ قتل بنایا گیا، بھٹو نے چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی کھلی جانبداری، ذاتی پرخاش اور توہین آمیز سلوک کی وجہ سے اس مقدمہ کی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔
18 مارچ 1978 کو لاہور ہائی کورٹ نے یکطرفہ کارروائی میں بھٹو کو سزائے موت کا فیصلہ سنا دیا جسے 6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ نے تین چار کے اکثریتی فیصلے سے برقرار رکھا اور 24 مارچ 1979 کو سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر نظر ثانی کی اپیل کو مسترد کر دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے رحم کی اپیل نہیں کی لیکن دنیا بھر سے اپیلیں ہوئی تھیں، ترکیہ نے تو سیاسی پناہ تک دینے کی پیشکش بھی کی تھی لیکن بھٹو نے تاریخ میں مرنا پسند نہیں کیا، جان دے دی تھی لیکن پاکستان نہیں چھوڑا۔
بھٹو امر ہو گیا
4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، موت برحق ہے، ہر کسی نے مرنا ہے لیکن موت موت میں فرق ہوتا ہے، کوئی بھٹو کی طرح مر کر امر ہو جاتا ہے تو کوئی بھٹو کے قاتلوں کی طرح مر کر مردود ٹھہرتا ہے کہ جنہیں ان کے سیاسی جانشین بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔
بھٹو کا نام رہتی دنیا تک بڑے فخر سے لیا جاتا رہے گا کیونکہ کرگسوں کے اس دیس میں بھٹو ہی ایک شاہین تھا کہ جس کی اڑان سب سے بلند، جس کی شان سب سے اعلیٰ اور جس پر مان اب ایمان کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔