نانجنگ(شِنہوا) ملتان کے 37 سالہ ساجد کلیم کا فضاوں میں اڑنا بچپن سے خواب رہا ہے۔اگرچہ وہ فضائیہ میں پائلٹ بننے کے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ناکام رہے لیکن چین سے بننے والے اس کے تعلق نے اسے تین بار اونچی اڑان کا موقع فراہم کیا ہے۔
2006 میں جب چین کی نانجنگ یونیورسٹی آف ایروناٹکس اینڈ ایسٹروناٹکس بین الاقوامی طلبا کے داخلوں کے سلسلے میں پاکستان گئی تو ملتان کے نوجوان نے اپنے خواب کو پورا ہوتے محسوس کیا۔
ساجد کلیم نے ایوی ایشن انجینئرنگ کے لیے درخواست دی اور داخلہ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اسکے خیال میں یہ اس کی زندگی کی پہلی اونچی اڑان تھی۔
اپنے تعلیمی مضامین کی خصوصیت کی وجہ سے، ساجد کا اکثر بڑے پیمانے پر مشینری اور آلات سے واسطہ پڑتا تھا۔ اس وجہ سے اسے چین اور پاکستان کے درمیان مشینری اور آلات کی درآمد اور برآمد کا پارٹ ٹائم کاروبار شروع کرنے کا موقع ملا۔
گریجویشن کے بعد، اسے شنگھائی میں مشینری اور آلات کی صنعت میں ایک غیر ملکی تجارتی مینیجر کی ملازمت مل گئی۔ساجد نے کہا کہ چین نے پاکستان کو ہائیڈرو پاور پراجیکٹس، کان کنی اور بندرگاہ کی تعمیر میں بہت مدد فراہم کی ہے۔ مجھے لگا کہ اس صنعت کے امکانات امید افزا ہیں۔
تاہم، مشینری اور آلات کی صنعت میں دو سال سے بھی کم کام کرنے کے بعد، ساجد نے چین کے مشرقی صوبہ جیانگ سو میں اپنی بیوی کے آبائی شہر سوچھیان جانے کا فیصلہ کیا اور دوسرا کاروبار شروع کیا۔ اس وقت چین پاکستان اقتصادی راہداری کی تعمیر شروع ہو چکی تھی دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تبادلے ایک نئے مرحلے میں داخل ہونا شروع ہو ئے تھے یہی وجہ ہے کہ ساجد نے اونچی اڑان کے اپنے دوسرے موقع پر اعتماد محسوس کیا۔
ساجد نے کہا کہ یہاں آنے سے پہلے اس نے سن رکھا تھا کہ سوچھیان ایک بڑا زرعی شہر ہے جس میں کئی قسم کی زرعی مصنوعات اور معیار بھی اچھا ہے اور یہ چین کا ایک معروف ای کامرس شہر بن رہا ہے۔ تاہم، اس کے خاندان نے پہلے پہل ایک پروفیشنل عہدہ چھوڑ کر ایک کسان بننے کو پسند نہیں کیا۔
اس کے خاندان کو اپنا رویہ بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگا، کیوں کہ ساجد نے کام کے ایک بھرپور سیزن میں ماہانہ 12 لاکھ سے 16 لاکھ پاکستانی روپے کمائے، اس کے ناقابل تسخیر جذبے، شہر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی ای کامرس انڈسٹری اور مضبوط مانگ کی بدولت اس کے بہت سے رشتہ داروں نے بھی اس کی پیروی کی اور چین اور پاکستان کے درمیان زرعی مصنوعات کا ای کامرس کاروبار شروع کیا۔
2019 کے آس پاس، ساجد نے تیزی سے لائیو اسٹریمنگ مارکیٹنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے باتائی میڈیا کمپنی قائم کی۔ساجد کا کہنا تھا کہ کاروبار شروع کرنا آسان نہیں تھا لیکن مقامی حکومت نے اس کی بہت مدد کی، مثلاً ملازمین کی بھرتی اور دفتر تلاش کرنے میں مدد کی گئی،حکومت ہر سال لائیو اسٹریمنگ کاروباری اداروں کے لیے یوٹیلیٹیز کو کم کرتی ہے اور کئی ٹریننگز کا اہتمام بھی کرتی ہے۔
20 لاکھ سے زیادہ فالورز کے ساتھ ساجد کا چین میں لائیو سٹریمنگ ای کامرس نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ہر روز فالورز میں اضافے کے ساتھ ساجد اپنے لائیو سٹریمنگ کاروبار کو زرعی مصنوعات سے لے کر نئی توانائی کے شعبے تک وسعت دے رہے ہیں۔
ساجد کے مطابق، اگرچہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ساتھ واقع بہت سے ممالک شمسی توانائی کے وسائل سے مالا مال ہیں، پھر بھی انہیں بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔ چین نئی توانائی کی ٹیکنالوجی کا عالمی رہنما ہے جس سے پہلے ہی دنیا کئی فوائد حاصل کرچکی ہے۔
اس وقت، ساجد چین میں کچھ بڑی فوٹوولٹک کمپنیوں سے رابطے کی کوششوں میں ہیں تاکہ اس شعبے میں سرحد پار ای کامرس تعاون شروع کیا جا سکے۔
ساجد نے شِنہوا کو بتایا کہ حال ہی میں بہت سے نوجوان پاکستانیوں نے ان سے کاروباری تجربے کے بارے میں مشورہ طلب کیا ہے، اور وہ ہمیشہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے معلومات سے آگاہ کردیتے ہیں،کیوں کہ بات چیت اور تعاون کے ذریعے ترقی کا اشتراک ‘بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو’ کی روح ہے، اور میں اس جذبے کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہوں۔