جھوٹا پراپیگنڈا مجھے حقداروں تک ان کا حق پہنچانے سے نہیں روک سکتا، شاہد آفریدی کا بائیکاٹ مہم پر رد عمل

کراچی(نیوزڈیسک)پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی اس وقت سوشل میڈیا صارفین کے نشانے پر ہیں، پی ٹی آئی کے حامی اکاؤنٹس کی جانب سے سوشل میڈیا پر ان کے خلاف باقاعدہ منظم مہم اور ’بائیکاٹ‘ کے ٹرینڈز بھی چلائے جا رہے ہیں، جہاں لوگ شاہد آفریدی کے خلاف ٹرولنگ کرتے نظر آئے وہاں بہت سے لوگ ان کے دفاع میں بھی سامنے آئے ہیں جن میں پی ٹی آئی کے رہنما شیر افضل مروت اور علی محمد خان بھی شامل ہیں۔
سوشل میڈیا ٹرولنگ کے بعد شاہد آفریدی دفاعی پوزیشن اختیار کر گئے اور نہ صرف اپنے بارے میں صفائیاں پیش کیں بلکہ عمران خان کو اپنا ہیرو بھی کہا لیکن شاہد آفریدی کی جانب سے کوئی بھی وضاحت ان پر ہونے والی تنقید میں کمی نہیں لا سکی ہے۔ بلکہ بائیکاٹ ٹرینڈ زور پکڑتا جا رہا ہے۔

ایسے ہی ایک صارف نے سماجی رابطوں کی سائیٹ ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ شاہد آفریدی کے تمام برینڈز کا بائیکاٹ کیا جائے۔
جس پر رد عمل دیتے ہوئے شاہد آفریدی نے کہا کہ ان برانڈز میں جو بھی میرا شیئر ہے وہ بچیوں کی تعلیم ، مختلف علاقوں میں صاف پانی کے کنوؤں ، اسپتال، بزرگوں کی فلاح وبہبود اور مستحقین میں راشن کی تقسیم پر خرچ ہوتا ہے۔ میں نے ان تمام پراجیکٹس سے آج تک ایک روپیہ بھی نہیں لیا البتہ ان کو چلانے کے لیے ہر طرح کے وسائل ضرور مہیا کیے ہیں۔ آپ اور آپ جیسے لوگوں کی سیاسی کم علمی اور جھوٹا پراپیگنڈا مجھے حقداروں تک اُن کا حق پہنچانے سے نہیں روک سکتا۔ میرا مشن میری فاؤنڈیشن کے ذریعے انشاءاللہ جاری رہے گا۔

 

اس سے قبل یوٹیوبر عمران ریاض خان نے شاہد آفریدی کے حوالے سے کہا کہ شاہد آفریدی کو قوم نے آنکھوں پر بٹھایا مگر انہوں نے ملک کا مینڈیٹ چوری کرنے والوں تک کو مبارکبادیں دیں، لوگوں نے اسے برداشت کیا مگر جب اپنی مقبولیت کی دھن میں مگن شاہد خان آفریدی نے پاکستان کے سب سے بڑے عوامی لیڈر پر کھل کر تنقید شروع کی تو لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
عمران ریاض خان کی جانب سے تنقید پر قومی ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے بھی انہیں ’ٹرول‘ قرار دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لائک، ریٹویٹ، ویوز وغیرہ کے چکر میں سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ ایک صحافی اور ٹرول میں یہ ہی فرق ہوتا ہے کہ صحافی تحقیق کرتا ہے۔ بہتان تراشی تو سب سے آسان کام ہے۔

Comments (0)
Add Comment