بیجنگ(نیوزڈیسک)فلپائن کے صدر مارکوس نے حال ہی میں ویتنام کا دورہ کیا۔ اپنے دورے کے دوران، انہوں نے فلپائن اور چین کے درمیان خودمختاری کے تنازع کے بارے میں "بے چین” ہونے کا دعوی کیا۔ کچھ مغربی میڈیا نے بھی بحیرہ جنوبی چین کے مسئلے کو بڑھاتے ہوئے نام نہاد "چین کے خطرے” کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں تعاون کیا۔
پچھلے سال سے، فلپائن نے چین کے جزیرہ ہوانگ یان اور رین آئی ریف کے قریب پانیوں میں بار بار دراندازی کی ہے، اور مستقل قبضہ حاصل کرنے کی کوشش میں رین آئی ریف پر غیر قانونی طور پر "گرانڈڈ جنگی جہازوں کو تعمیراتی سامان بھی پہنچایا ہے۔ گزشتہ سال کے آخر میں، چین کے ساتھ ایک فون کال کے دوران، فلپائنی وزیر خارجہ نے چین کے ساتھ بات چیت کو مضبوط بنانے اور کشیدگی میں کمی کو فروغ دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ لیکن حقیقت میں فلپائن نے ایسا نہیں کیا۔
فلپائن کے سابق صدارتی ترجمان ریگوبرٹو ٹیگلا نے حال ہی میں ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ "امریکہ کے لیے ہمیں برین واش کرنا بہت آسان ہے۔” یہ جزوی طور پر فلپائن کے موجودہ خطرناک اقدام کی وجہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پچھلے سال سے، امریکہ نے نام نہاد "انڈو پیسیفک اسٹریٹجی” کو فروغ دینے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں اور فلپائن کی موجودہ حکومت پر دبا اور ترغیبات میں اضافہ کیا ہے تاکہ فلپائن کو جنوبی بحیرہ چین میں چین مخالف "موہرے” میں تبدیل کیا جا سکے۔ دوسری طرف صدر مارکو داخلی طور پر ملک میں حکمرانی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ فلپائن کی پولنگ ایجنسی "ایشیا پلس” کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 73فیصد لوگ فلپائنی حکومت کی مہنگائی پر قابو پانے کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ دبا کے تحت، مارکوس نے جان بوجھ کر بیرونی خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے گھریلو تنازعات کا رخ موڑ دیا اور اپنی حکمرانی کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ۔
ایک طویل عرصے سے، چین اور آسیان ممالک نے بات چیت، مشاورت اور مشترکہ ترقی کے ذریعے تنازعات کو مناسب طریقے سے حل کرنے کے طریقے تلاش کیے ہیں، اس بات پر زور دیا ہے کہ متعلقہ تنازعات کو براہ راست متعلقہ ممالک کی دوستانہ مشاورت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔ فلپائن کی جانب سے چین کے خلاف "چھوٹا حلقہ” بنانے کی کوشش نہ صرف تنازعہ کو پیچیدہ اور وسیع کرتی ہے بلکہ بحیرہ جنوبی چین میں مختلف فریقوں کے طرز عمل سے متعلق اعلامیہ کی روح کی بھی خلاف ورزی کرتی ہے اور علاقائی ممالک کی ابتدائی مشترکہ کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔