پاکستان کے سیاسی تجزیہ کار اور چائنا انٹرنیشنل پریس کمیونیکیشن سینٹر کے ریسرچ فیلو محمد ضمیر اسدی نے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) 21ویں صدی کا اہم ترقیاتی اور سفارتی اقدام ہے،اس کے تحت 29 ارب ڈالر کے 36 منصوبے مکمل ہوچکے جبکہ 22 پر کام جاری ہے،چین عالمی سطح پر 3000 بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) منصوبوں میں ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرچکا اور 40 ملین سے زیادہ لوگوں کو غربت سے نکال کر ان کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو اے پی پی کو انٹرویوکے دوران کیا۔
انہوں نے کہاکہ 2023 کے آخر تک سی پیک کے فریم ورک کے تحت مجموعی طور پر 29 ارب ڈالر کے 36 منصوبے مکمل ہو چکے اور 22 منصوبوں پر کام جاری ہے جن کے مثبت نتائج آنے ابھی باقی ہیں۔انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان تعاون کے موجودہ شعبوں کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایم ایل ون کی اپ گریڈیشن،خصوصی اقتصادی زونز اور زراعت کی ترقی نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تیسرے فریق کی سی پیک سرمایہ کاری میں دلچسپی سے اس منصوبے کی اہمیت میں اضافہ ہوگا،پاکستان اور چین تیسرے فریق کی شمولیت بارے بات چیت کر رہے ہیں، یعنی بہت سے غیر ملکی اداروں اور حکومتوں نے اس اقتصادی راہداری میں شامل ہونے کی درخواست کی ہے، اس منصوبے کے ٹھوس فوائد نے پاکستان کے سماجی اقتصادی منظرنامے کو تبدیل کر دیا ہے اور اگلے مرحلے میں بہت کچھ سامنے آئے گا۔ ضمیر اسدی نے کہا کہ سی پیک پاکستان اور خطے کی سماجی اقتصادی ترقی کے لیے نیا محرک بنے گا، میرے خیال میں سی پیک کھلی راہداری ہے اور دونوں ممالک کسی بھی تیسرے فریق کی شمولیت کا خیرمقدم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ 2013 میں شروع کیا گیا سی پیک، بی آر ائی کا ایک اہم منصوبہ ہے، یہ راہداری گوادر کی بندرگاہ کو شمال مغربی چین کے خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور سے جوڑتی ہے اور توانائی، نقل و حمل اور صنعت کے شعبوں میں تعاون کو نمایاں کرتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سی پیک نے دونوں ممالک کے درمیان صنعتی تعاون کو وسعت دی ،
پاکستان کی صنعتوں کو درآمدی پرزہ جات اسمبل کرنے سے لے کر پرزوں کی مقامی پیداوار تک فروغ دیا ہے، اس کے علاوہ یہاں توانائی کی بچت والی صنعتوں کی ترقی کو بہتر بنانے کے لیے چینی کاروباری اداروں کی مختلف شکلوں کو پاکستانی مارکیٹ میں داخل ہونے کی ترغیب دی ۔انہوں نے کہا کہ سی پیک نے کیمیکلز اور فارماسیوٹیکل، انجینئرنگ کے سامان، زراعت، مینوفیکچرنگ اور تعمیراتی مواد جیسے شعبوں میں صنعتی صلاحیت کے تعاون کو فروغ دیا ۔