چائنا میڈیا گروپ کو دئے گئے حالیہ انٹرویو میں ایک ہسپانوی ماہر نے کہا کہ بحیرہ احمر کے حوالے سے یورپی یونین کے ممالک کا رویہ یکساں نہیں ہے جس کا مطلب ہے کہ مغربی ممالک مشرق وسطیٰ کی صورتحال کے معاملے پر حقیقی معنوں میں متحد نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بحیرہ احمر کی بگڑتی ہوئی صورتحال یورپی معیشت پر نمایاں اثرات مرتب کرے گی۔
ہسپانوی ماہر اقتصادیات یوجینیو لوپیز نے کہا کہ یورپی ممالک خود کو امریکی فوج کی کمان میں نہیں رکھنا چاہتے۔بحیرہ احمر کے آپریشن میں صرف برطانیہ اور امریکہ ہی متحد ہیں جبکہ دوسرے ممالک کی اپنی اپنی پوزیشن ہے۔ یورپی یونین کے 27 رکن ممالک ہیں جو مختلف سیاسی نظام اور سفارتی حکمت عملی رکھتے ہیں.
اس کے علاوہ ہسپانوی میڈیا میں شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹس کے مطابق بحیرہ احمر کے علاقے میں تنازعے کی توسیع سے جہاز رانی کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے جس کا ایشیا اور یورپ کے درمیان بحری تجارت پر اہم اثر پڑا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق بحیرہ احمر کے علاقے میں تنازعے کا اسپین کی تجارت پر اثر 135 ارب یورو تک پہنچ سکتا ہے اور اس سے اسپین میں افراط زر میں تیزی آنے کی توقع ہے۔ ہسپانوی ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ برطانیہ اور امریکہ کے حملوں کی وجہ سے بحیرہ احمر کے خطے میں تنازعات میں اضافہ ہوا ہے جس نے عالمی بحری تجارت کو بھی شدید متاثر کیا ہے اور درآمدی و برآمدی تجارت کی لاگت میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔